سیلاب سے متاثرہ خواتین کی صحت اور ضروریات


ڈبلیو ایچ او (جنیوا) نے پاکستان کے سیلاب کو تیسرے درجے کی ایمرجنسی گردانتے ہوئے دینا بھر کو امداد دینے کی درخواست کی اور اپنی جانب سے بھی خطیر رقم دینے کا اعلان کیا جسے زخمیوں کے علاج، صحت کی سہولیات اور وبائی بیماریوں کی روک تھام کی جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”پاکستان کے 3 / 4 اضلاع اور 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 6 + ملین کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان، ڈاکٹروں کی کمی اور صحت کی محدود فراہمی صحت کی خدمات میں خلل ڈال رہی ہے، جس سے بچے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو خطرہ بڑھ رہا ہے“ ۔ جبکہ یو

ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان پہلے ہی کورونا، ٹائیفائیڈ، خسرہ، پولیو اور ایچ آئی وی جیسے امراض سے نمٹنے کی کوشش میں تھا۔ سیلاب سے صحت کے انفراسٹرکچر کے تباہ ہونے کے بعد ، اسہال کی بیماریاں، ڈینگی، سانس کی نالی کے انفیکشن، ملیریا، جلد کی خارش اور بہت سے ایسی بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

دوسری جانب اس وقت سوشل میڈیا پرنہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے کہ آیا سیلاب میں پھنسی خواتین کو سینیٹری پیڈز فراہم کیے جائیں یا یہ نہیں۔ صبا یوسف نے ڈیلی ٹائمز کے بلاگ میں اس گفتگو کے چند حصے درج کیے جو مندرجہ ذیل ہیں

ٹویٹر پر ایک صاحب نے لکھا کہ ”یہ ایسے ہی ہے جیسے مصیبت کے وقت مردوں کو شیونگ مشین فراہم کرنا“
اس کے جواب میں خاتون نے لکھا کہ ”آپ تو حیض کو داڑھی بڑھانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں“ ۔
صاحب نے کہا کہ ”حفظان صحت کی بات ایسے وقت کرنا جب آپ کا سب کچھ سیلاب بہا کر لے گیا ہو“

خاتون نے کہا کہ ”کیا مرد بتا سکتے ہیں کہ صحت کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں اگر مردوں کو کچھ عرصہ بنا داڑھی بنائے رہنا پڑے؟

صبا یوسف مزید لکھتی ہیں کہ ”سوشل میڈیا پر موجود اکثریتی مردوں کو لگتا ہے کہ انہیں عورتوں کی صحت کے بارے میں عورتوں سے زیادہ معلوم ہے لہذا سینٹری پیڈز سے زیادہ دوسری اشیا سیلاب زدگان کو فراہم کرنا چاہیے۔ دوائیاں زیادہ ضروری ہیں با نسبت پیڈز کے اور کھانا فراہم کیا جائے نہ کہ پیڈز جن کی مہینے میں صرف ایک بار ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ حیض کسی بھی تباہی کے دوران نہیں رکتے“ ۔

مردوں کے نزدیک یہ ایک غیر ضروری اور لگژری چیز ہے۔ انہیں سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عورتوں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ بقول ان کے پہلے زمانے میں عورتیں کون سا سینٹری پیڈز استعمال کرتی تھیں یہ تو جدیدیت کے تقاضے اور شہروں کے چونچلے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ پہلے زمانے میں اور آج بھی ہمارے ملک کے دیہاتوں اور دور افتادہ علاقوں میں خواتین کپڑے کا استعمال کرتی تھیں اور کرتی ہوں گی۔ لیکن سیلاب کی وجہ سے سب کچھ تباہ یا پھر سیلاب میں بہہ گیا ہے اور تن کے کپڑوں کے سوا کچھ میسر نہیں۔ ایسے میں حیض آنے کی صورت میں وہ کیا استعمال کریں؟ یا پھر خون سے بھر کپڑے لے کر وہ سب کے سامنے پھرتی رہیں۔ تو جناب آپ ہی اسے فحاشی اور بے حیائی سے منسوب کر دیں گے۔

حفظان صحت کے فقدان سے خواتین کو پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہونے اور اس سے جڑی کئی دوسری بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

کیئر انٹرنیشنل پاکستان (جو کہ قدرتی آفات میں دور افتادہ علاقوں میں لوگوں کو مدد فراہم کرتا ہے ) کے ڈائریکٹر عادل شیراز کہتے ہیں کہ ”قدرتی آفات جب بھی آتی ہیں اس میں سب سے زیادہ عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں مثلاً حاملہ عورتیں ایسی صورتحال میں کہاں بچوں کو جنم دیں جبکہ سیلاب نے ہر گھر سمیت ہر چیز برباد کر دی ہو حتی کہ میٹرنٹی سینٹرز بھی نہ رہے ہوں ایسے میں عورتیں اور نو زائیدہ بچے سب سے زیادہ خطرہ میں ہیں۔ جناب شیراز نے مزید کہا کہ“ ہم چونکہ قدرتی آفات پر ہی کام کرتے ہیں اس لیے ہمارا تجربہ ہے کہ اسی صورتحال میں ہمیشہ بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

یو این کی تولیدی ایجنسی کے مطابق اس وقت سیلاب سے 650,000 ایسی خواتین متاثر ہیں جو کہ حاملہ ہیں جن میں سے تقریباً 73,000 وہ شامل ہیں جنہوں نے اگلے ماہ بچوں کو جنم دینا ہے یعنی جن کو کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہیں ہوگی زیادہ مشکلات سے دوچار ہوں گی۔

جس طرح انسانی جسم کو خوراک، دوا، صاف پانی، صاف ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے جسم کو صاف رکھنا بھی ایک ضرورت ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم جب یہ مانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اس پر ہمارا کامل یقین بھی ہے تو پھر عورتوں کی جسمانی صحت کی ضروریات سے انحراف کیوں؟

مختلف ادارے اور انفرادی سطح پر لوگ سیلاب زدگان کے لیے خشک راشن، کپڑے، ٹینٹ اکٹھے کر رہے ہیں وہیں اگر وہ خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز، انڈر گارمنٹس بھی لے کر متاثرہ لوگوں تک پہنچا دیں تو اس سے نہ صرف متاثرہ خواتین کو سامان میسر ہو گا بلکہ ان خواتین کی تربیت و آگاہی میں مدد بھی ملے گی جنہوں نے ابھی تک سینٹری پیڈز استعمال نہیں کیے اور جنہیں ان کی عدم موجودگی سے ہونے والی بیماریوں کی معلومات نہیں ہے۔ امید ہے کہ ہم بحث کرنے کی بجائے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی عملی مدد کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).