سندھ میں ریلیف ورک اور بڑھتی لسانی رواداری


کہتے ہیں کہ مصیبتیں اور طوفان انسان کو اپنے لسانی اور مذہبی اختلافات کو پس پشت ڈال کر انسان بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ جب بنی نوع انسانی کسی بڑی مصیبت میں پھنسی ہے اور کسی بڑی تباہی سے دوچار ہوئی ہے، تو انجام کار انسانیت کا جذبہ بڑی تیزی سے بیدار ہوا ہے۔ ماضی قریب میں دو عالمی جنگوں کے بعد یورپ میں پھلنے پھولنے والی اعلیٰ انسانی اقدار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کچھ ایسے ہی رویے پاکستان میں حالیہ سیلاب کے دوران بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔

پاکستان کا صوبہ سندھ، جہاں دو لسانی اکائیاں آباد ہیں اور دونوں کے درمیان لسانی کشمکش کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی طویل ہے کہ جتنا پاکستان کی تاریخ، متعدد بار یہ کشمکش بڑھ کر خونی تصادم کی شکل بھی اختیار کرچکی ہے اور زمانہ امن میں بھی ایک سرد جنگ ہے، جو ان دونوں کے اکائیوں کے درمیان مسلسل چلتی رہتی ہے۔ لیکن حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں کی جانب سے کی گئی امداد اور ریلیف ورک کی وجہ سے ایک امید پیدا ہو چلی ہے کہ شاید اب اس لسانی عصبیت کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔

پاکستان کا صوبہ سندھ، وہ صوبہ ہے، جو نہ صرف حالیہ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں شدید متاثر ہوا ہے، بلکہ دریائے سندھ میں آنے والے سیلابی ریلوں کا آخری نشانہ بھی اسی صوبے نے آج یا کل بننا ہے۔ جس کے نتیجے میں جو تباہی اب تک ہو چکی، اتنی مزید تباہی نوشتہ دیوار ہے۔ یقیناً سیلاب اور طوفان جیسی قدرتی آفات کو کسی بھی طرح خوشگوار تو نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ یہ بنی نوع انسانی اور دیگر حیاتیات کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں سندھ کی دونوں اکائیوں کے درمیان پیدا ہونے والی قربتیں، البتہ بہت خوش کن ہیں۔

جیسا کہ یہ واضح ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اکثریت، ان علاقوں کی ہے، جہاں سندھی زبان بولنے والے پاکستانی رہتے ہیں اور اردو بولنے والے علاقے ابھی تک زیادہ متاثر نہیں ہوئے ہیں اور خاص کر سندھ کی راجدھانی کراچی کو متاثر ہونے کا کوئی خاص امکان بھی موجود نہیں ہے۔ ایسے میں کراچی، جہاں اردو بولنے والے مہاجر، اکثریت میں رہتے ہیں، وہاں سیلاب متاثرین کی امداد کا جذبہ زوروں پر ہے۔ روزانہ درجنوں ٹرک سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے روانہ کیے جا رہے ہیں اور ان سب ریلیف کے کاموں میں اردو بولنے والے پاکستانی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کی جانب سے سندھی بولنے والے شہریوں کی اس بے لوث امداد اور سخاوت نے سندھ کی دونوں لسانی اکائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ایک ایسی مہاجر لڑکی کی ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے، جس میں، ایک لڑکی اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے سونے کی انگوٹھی جمع کرانے ایک فلاحی تنظیم کے کیمپ پر پہنچتی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ ”میرے گھر میں نقدی نہیں ہے، مجھے میرے شوہر نے سالگرہ پر یہ انگوٹھی گفٹ کی تھی، آج میرے سیلاب زدہ بھائیوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے میں یہ دینے آئی ہوں“ ۔ یہ کہتے ہوئے اس لڑکی کی آنکھوں میں اترنے والی نمی کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے، جو سیلاب متاثرین کے لیے اس کے دل میں موجود کرب کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

ایک جانب اردو بولنے والے مہاجر کمیونٹی کے افراد بڑھ چڑھ کر سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں، تو دوسری جانب سندھ کے قدیم باسی بھی مہاجرین کی ان قربانیوں کی داد فراخ دلی سے دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں سندھی بھائیوں نے اس خاتون کی ویڈیو کو وائرل کیا ہوا ہے اور ساتھ میں مہاجر کمیونٹی کے حوالے سے خیر سگالی کے پیغامات بھی لکھے جا رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اس سیلاب کے بعد سندھی، مہاجر کی کشمکش ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والی ہے اور اب سندھ کی دونوں اکائیوں کے عام افراد کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے، کہ ان کی اکثریت انسانیت، اخوت اور وحدت کے رشتے میں پروئی ہوئی ہے اور اب سندھ کو نادیدہ قوتوں، سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے آلہ کار بن کر مزید تقسیم کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو پھر کہا جائے گا کہ موجودہ سیلاب جہاں بہت سی مشکلات لایا، وہی ایک ایسا انقلاب بھی لایا، جہاں عام سندھی، مہاجر نے اپنے ہی جیسے سندھی، مہاجر میں موجود انسانیت کو پہچان لیا اور دونوں سندھ کی ترقی کے لیے ایک دوسرے کا دست و بازو بن گئے، اگر ایسا ہو گیا تو پھر سندھ کو تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتار ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں لسانی اکائیوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لیے سندھ کے شعرا اور ادیب بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments