پاکستان میں اخباری کارکنان کی تنخواہیں اتنی کم کیوں ہیں؟


پاکستانی صحافت سے وابستہ اخباری کارکنان اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ پاکستانی سماج میں جہاں دیگر سنگین المیے پائے جاتے ہیں وہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی اخبارات کے کارکنان کی تنخواہیں بہت کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کی تنخواہیں قدر بہتر ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں پاکستانی صحافت میں اخباری کارکنان غیر معمولی طور پر سرمایہ داروں کے استحصالی رویہ کا شکار ہیں۔

اس استحصالی اور طبقاتی روش کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس سنگین المیہ کی ایک بڑی وجہ سرمایہ داروں کی وہ سوچ ہے جو انھیں اپنا اخبار نکالنے پر مجبور کرتی ہیں، یعنی سرمایہ دار اپنے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جو منافع کمانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اپنے ”کاروبار“ کو درپیش قانونی و محکمہ جاتی مسائل کے ”خوف“ سے آزاد کرانے کے لیے کی جاتی ہے جو کہ کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی صحافی کی ”خبر“ کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اخباری کارکنان کی کم تنخواہوں کے پیچھے ایسے ہی سرمایہ داروں کی انتقامی سوچ کار فرما ہوتی ہے کیونکہ یہ سرمایہ دار نظریاتی بنیادوں یا پھر خدمات کے جذبہ سے سرشار ہو کر تو صحافتی میدان میں کودتے نہیں ہیں۔ دوسری جانب اخباری کارکنان کی کم تنخواہیں ہونے کی دوسری بڑی وجہ صحافتی حقوق کی تنظیمیں ہیں جن کے رہنماؤں کی اکثریت اخباری مالکان کے زر خرید ہوتے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کے مفادات کا سودا کرتے ہوئے غیر معمولی مراعات حاصل کرتے آئے ہیں۔

ایسے میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اخباری کارکنان کی کم تنخواہیں ہونے کی ذمہ داری ملک کے دو بڑے میڈیا ہاؤسز پر بھی عائد ہوتی ہے جو یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ پاکستانی صحافت پر وہ بلا فصل اپنی اجارہ داری رکھتے ہیں ہے، لہذا وہ جو کرتے ہیں وہ ٹرینڈ (روایت) بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کے اخبارات میں کارکنان کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ بتاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور اسی روش کو نئے اخبارات کے مالکان بھی بر قرار رکھتے ہیں اور یوں یہ ایک ”فرضی روایت“ بن گئی ہے کہ اخبارات میں تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔

کس قدر حیران کن اور دلچسپ امر ہے کہ جو اخباری کارکنان (صحافی ) سماج کے ہر طبقہ میں ہونے والی نا انصافیوں، ظلم کی داستانوں اور برائیوں کو اجاگر کرتے ہیں لیکن وہ خود اپنی مظلومیت کا رونا کسی کے آگے نہیں رو پاتے۔ یہ محرومی اور مایوسی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف نظریں چرائی جاتی ہیں بلکہ مجرمانہ غفلت بھی برتی جاتی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی صحافت ایک المیہ یہ ہے یہاں الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز کو سینیئر صحافی اور تجزیہ کار بنا کر سماج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جن میں سے اکثریت ایسی ہوتی جو اپنے ”موضوع“ کی ایک سطر بھی خود نہیں لکھ سکتے بلکہ ان کے پورے کے پورے ”اسکرپٹ“ اخباری تجربہ رکھنے والا کوئی صحافی ہی لکھ رہا ہوتا ہے جس کی یہ اینکرز محض منہ سے جگالی کرتے ہیں۔

یہاں بھی تنخواہوں کا معیار بھی ایسا ہی ہے جو اوپری سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایک لکھاری (رائٹر) اینکر کے مقابلے میں انتہائی کم تنخواہ کو حق دار ٹھہرتا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاستی سطح پر اخباری کارکنان کے معاشی حقوق کے حوالے سے قانون موجود ہیں تو اس کے باوجود اخباری کارکنان اپنے معاشی حقوق سے محروم ہیں۔ جیسا کہ بیشتر اخبارات میں ملازمین کو مستقل ملازم یعنی کارکن کی حیثیت نہیں دی جاتی بلکہ انھیں برس ہا برس عارضی ملازم کے طور پر رکھا جاتا ہے تاکہ ایسے ملازمین پر ”ویج بورڈ ایوارڈ“ کا اطلاق نہ ہو سکے۔

حالانکہ اخبارات میں ویج بورڈ ایوارڈ کا اطلاق آسانی ہو سکتا ہے اگر حکومت اپنے اشتہارات ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد سے مشروط کر دیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخباری کارکنان کے معاشی استحصال میں اخباری مالکان اور حکومتوں کا گٹھ جوڑ بھی کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری کارکنان کی تنخواہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں مقرر کرنا تو دور کی بات ان کی تنخواہوں میں اضافہ کے لیے بڑھتی ہوئی منگائی کے تناسب کو بھی ملحوظ خیال نہیں رکھا جاتا، یا پھر ایسا ہے کہ بعض اداروں میں گزشتہ کئی برسوں سے تنخواہوں میں اضافہ سرے سے ہی نہیں کیا جا سکا ہے۔

ایسے میں اخباری کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو گزشتہ چار سے پانچ برسوں میں بے روزگاری کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور اس طرح بہت سے اخباری کارکنان کو اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے روزگار کے دوسرے ذرائع بھی استعمال کرنا پڑے ہیں جن میں فوٹوگرافرز اور کیمرہ مین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ میڈیا انڈسٹری میں پیدا ہونے والے اس غیر معمولی بیروزگاری کے ماحول میں الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی ہے جبکہ بیروزگاری اور بقایا جات کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں کچھ صحافی ساتھیوں کی طرف سے خودکشی کرنے جیسے المناک واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سماج ترقی نہیں کرتا، لیکن کیوں نہیں کرتا، اس سوال کے جواب کی تلاش میں بہت سے بنیادی پہلو نظر انداز کر دیے جاتے ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں اخباری کارکنان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو کسی خاطر میں نہیں لایا جانا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں جس سماج میں دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی اکثریت بے روزگار رہتی ہو یا پھر کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہو تو پھر ایسا سماج کیوں کر ترقی کرے گا کیونکہ اس پڑھے لکھے اور حساس طبقے کے لیے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا انڈسٹری بالخصوص اخبارات ہی ہوتے ہیں، یعنی نظریات اور افکار کی تخلیق کا سب سے بڑا ذریعہ اخبارات ہوتے ہیں۔ اگر ریاست اور سماج کی ترقی مقصود ہے تو تو پھر اخباری کارکنان کی تنخواہوں کو مہذب معاشروں کے اخبارات کے کارکنان کے برابر نہیں تو اس کے قریب ترین ضرور کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments