گم شدہ دس روپے اور حاصل شدہ چار کتابیں!


پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ جو دکھائی دے ریا ہے، وہ وہی ہے یا اس کا شائبہ۔ ہچکچاہٹ اور تذبذب نے کچھ ساعت سوچنے میں لگایا کہ یہ عمل مناسب ہو گا کہ نہیں، یہ امانت میں خیانت تو نہیں۔ پھر نہ جانے کس خیال اور ارادے سے یہ فیصلہ ہوا کہ اسے اٹھا لیا جائے۔ ہوا سے اڑ کر کہیں اور چلے جانے کا جواز بھی اس دوران خود کو مطمئن کرنے کے لئے بھلا محسوس ہوا۔ اب یہ طے کرنا بے حد مشکل ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے، اس لمحے کون سا جذبہ کار فرما تھا۔

دراصل یہ دو گھروں کا مشترکہ راستہ تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ نہیں معلوم یہ کس طرح اس راستے پر آ گرا اور کب سے وہاں موجود تھا۔ شاید اس سے پہلے اس پر کسی کی نظر نہیں پڑی ورنہ یہ حتمی طور پر کہنا مشکل ہے کہ یہ وہاں پھر بھی موجود ہوتا کہ نہیں۔ اسی شش و پنج میں ( جانے کیوں ) یہ مناسب لگا کہ اس کو اپنی تحویل میں لینے کی ہمت کی جائے۔

یوں اچانک اس روپے کو روپے کی شکل میں پانا، شاید اتنی خوشی کا باعث نہ تھا جتنا کہ اس کے توسط سے کسی اور تک پہنچنا، سو اس کے بعد یہ بے تابی لاحق ہوئی کہ کسی طرح کنوینس میسر ہو اور وہ مہم سر کی جائے جو اس کے پاتے ہی نئے جذبے سے دوچار ہو چکی ہے۔ انتظار کی تاب دم توڑتی جا رہی تھی کہ اب نیک کام میں دیر کیسی۔ آنکھوں میں مطلوبہ شبیہ بار بار گردش کرنے لگی جس کا فوری حصول اب ممکن دکھائی دیتا تھا۔

یہ تب کی بات ہے جب ہمارے معاشرے میں ٹانگے کی سواری دستیاب بھی تھی اور سڑکوں پر اس کا راج بھی ہوا کرتا تھا اور اوکاڑہ جیسے شہروں میں، خاص طور پر، یہ ذرائع نقل و حرکت کا ترجیحی وسیلہ خیال کیا جاتا تھا۔ ستلج کاٹن ملز جیسی جگہ میں رہائش گاہ کا ہونا اس سلسلے میں یوں بھی معاون تھا کہ یہ مل مرکزی سڑک پر واقع تھی جہاں سے شہر میں کہیں بھی مقابلتاً زیادہ آسانی سے پہنچا جاسکتا تھا یا شہر سے اتنی ہی آسانی سے گھر واپسی ہو سکتی تھی۔

سردست طے شدہ ہدف ریلوے اسٹیشن تھا کہ جہاں ایسی دکانیں موجود تھیں جو پہلے سے آزمودہ بھی تھیں اور جن کے محل وقوع سے آگاہی بھی تھی۔ شاید شہر میں اس سے بہتر مقامات بھی ہوں اور یقیناً ہوں گے مگر سیکنڈری اسکول کی محدود معلومات اور ناکافی تجربے میں غالباً وہ ہی جگہیں مناسب لگنے لگتی ہیں جو خود کو رسائی میں دکھائی دیں اور جہاں بار بار پہلے بھی جانے کا اتفاق ہوا ہو۔ سو اس بار بھی اس معجزاتی کیفیت میں اسی دکان کا نقشہ پیش نظر تھا، ایسے جیسے وہاں اپنی موجودگی میں دکاندار کے ساتھ گفتگو کا مرحلہ درپیش ہو اور عام سے لمحات، خوشگوار صورت حال میں ڈھل ہو رہے ہوں۔

ٹانگے پر سوار ہوتے ہوئے یوں لگا، خواب اب حقیقت سے اتنا ہی دور ہے جتنا یہ ٹانگہ، مطلوبہ اور (مقصود) دکان سے! گھوڑے کی ردھم اور دل کی دھڑکن پہلی بار ہم آہنگ محسوس ہوئی کہ ہر تال وہی کہہ رہی ہو جو سماعت سننے کے لئے آمادہ ہے۔ سفر کے دوران راستے کی کوئی شے آج اپنی طرف توجہ حاصل کرنے کی اہل نہ تھی۔ فاصلے کیسے گزرے، یہ اندازہ تک نہ ہوا۔ کوچوان کی دوسری گاڑیوں اور گھؤڑے کو دی جانے والی آوازوں کی یک دم خاموشی اور چابک کے بے اثر ہونے سے یہ سحر ٹوٹا کہ جہاں کی خواہش تھی، وہ مقام مقابل ہے۔

پہلے سے آزمائے راستے، قدموں کی نشاندہی از خود کر نے لگے اور ریلوے کی روایتی سیڑھیوں سے گزرنے کا لطف آج بھی ہمیشہ کی طرح وہیں موجود تھا، مگر آج اس سے بھی بڑھ کر جاں فزا کچھ ہونے کو تھا سو بس نہ چلتا تھا کہ یہ دل پسند سیڑھیاں ایک ہی جست میں عبور کر لی جائیں۔ نہیں معلوم، شاید ایسا ہوا بھی ہو۔ ہانپتے کانپتے دکان میں داخل ہو کر دکان کی اسی سمت پہلی نظر پڑی جہاں کا منظر بہت عرصے سے دل کو اپنی طرف مائل کرتا تھا۔ منظر جوں کا توں ویسا ہی موجود تھا۔ یہ چار کتابوں کا ایک سیٹ تھا۔ غالباً یہی نام تھے، ٹارزن، ٹارزن کا بیٹا، ٹارزن جنگل میں، ٹارزن کی واپسی۔ دکان دار سے قیمت کی تجدید کی گئی تو سکون کا سانس لیا۔

قیمت تاحال اتنی ہی تھی جو اس دستیاب رقم کے عین مطابق تھی۔ ڈھائی روپے فی کس، یعنی دس روپے کا مکمل سیٹ! اس سیٹ کو پانے اور اپنی نام نہاد گھریلو لائبریری کا حصہ بنانے کی خواہش اتنی دیرینہ تھی کہ دکان دار سے، اسے یوں جھپٹ کر ہتھیا یا کہ کہیں کوئی اور حملہ آور، اچانک آ کر اس خزانے کو لوٹ نہ لے۔

اس کہانی کا وہ موڑ ہرگز اتنا خوشگوار نہ تھا جب شام ڈھلے کسی قدر پریشانی کے عالم میں، پڑوسی، گھر کے مشترکہ راستے سے گزرتے ہوئے یہ جاننا چاہ ر ہے تھے کہ کسی نے ایسا کچھ دیکھا تھا نہیں۔ جواب ہوتے ہوئے بھی، جانے کیوں اس کا جواب دینا مشکل لگا۔

آج اتنے برس ہا برس بعد یہ سوال ابھی بھی دل کے کسی گوشے میں اسی طرح دھڑکتا ہے کہ اگر میں پڑوسی کو یہ بتا دیتا کہ میں نے ان پیسوں سے یہ چار کتابیں خریدی ہیں تو ان کا کیا ردعمل ہوتا۔ کیا وہ خوش ہو جاتے، کیا وہ ناراض ہوتے، کیا وہ کوئی بات سمجھاتے یا شاید اس کوتاہی پر، ان کتابوں کی خریداری کا سن کر درگزر کر دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments