روشن خیالی دور اور اس کے اہم سیاسی مفکرین


یورپ کے نشاۃ ثانیہ دور ”میں ابھرے فکری تجسس“ اور تنقیدی طرز فکر سے کام لینے کے نئے رجحان اور 16 ویں صدی کے ”ریفارمیشن تحریک“ کے باعث لائی گئی ذہنی آزادی کے طفیل 16 ویں صدی کے وسط اور 17 ویں صدی کے دوران یورپ میں بعض سائنس دانوں ( کوپرنیکس۔ کیپلر، گلیلیو، نیوٹن، رابرٹ بوائل وغیرہ ) نے طبعی دنیا کے بارے نئے نظریات پیش کیے جن نے یورپی فکر کو نئی سوچ کی راہ پر ڈالا۔

مورخین نے اس کو سائنسی انقلاب کا نام دیا ہے۔

اسی سائنسی انقلاب کے زیر اثر سوچ اور طرز فکر کی نئی راہیں وا ہونے پر سکالر اور مفکرین نے معاشرے کے دوسرے پہلووں ( حکومت۔ مذہب۔ معیشت اور تعلیم ) کے بارے بھی پرانے تصورات کا نئے سرے سے جائزہ لینا شروع کیا۔ ان مفکرین کے اس انداز نظر اور کاوشوں سے ایک نئی فکری تحریک ”کا آغاز ہوا جس کو روشن خیالی“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تحریک نے مسائل کے حل کے لیے افراد کے عقل و فکر اور صلاحیت پر زور دیا۔ اس تحریک کو دور عقلیت ( Age of reason ) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک 18 ویں صدی کے وسط میں عروج پر پہنچی اور مغربی تہذیب کے بے شمار پہلووں میں بڑی تبدیلیوں کا محرک بنی۔

”اس تحریک کے دور عروج میں اس کا اہم مرکز“ پیرس تھا

اس دور کے سماجی سکالرز جن کو فلاسفہ ( فلاسفر ) کہا جاتا تھا کا نکتہ نظر یہ تھا کہ جس طرح ”نیوٹن“ نے سائنس میں عقل کا استعمال کیا اسی طرح افراد زندگی کے ہر پہلو میں عقل کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ روشن خیالی دور کے ان فلاسفرز کے خیالات پانچ تصورات پر استوار تھے۔

1 ) عقل۔ حقیقت کو عقل اور منطقی انداز فکر سے دریافت کیا جاسکتا ہے
2 نیچر ) ہر فطری شے اچھی اور مطابق عقل ہے۔

3۔ ) خوشحالی۔ محض موت کے بعد زندگی کی راحتوں میں مگن رہنے کے بجائے موجودہ زندگی کو بہتر بنانی چاہیے۔

4۔ ) ترقی۔ یہ مفکرین معاشرے اور انسانیت کی بہتری کے قائل تھے۔
5۔ ) آزادی۔ افراد کے جمہوری آزادیوں اور حقوق دینے کے داعی تھے۔

دوسرے معاشرتی پہلووں کے علاوہ طرز حکومت کے سلسلے میں اس دور کے مفکرین نے بادشاہوں کے الہی حق بادشاہت، چرچ اور ریاست اور افراد اور ریاست کے درمیان تعلق اور غیر مساوی سماجی طبقات جیسے پہلووں کا عقلی جائزہ لیا اور اس میں اصلاح کی ضرورت کی بات کی

طرز حکومت کے حوالے سے روشن خیال فکر کا آغاز

17 ویں صدی کے دو انگریز سیاسی مفکرین تھامس ہابز ” ( ) 1588 تا 1679 اور“ جان لاک ” (1632 تا 1704 ) کے بعض اہم تصورات سے ہوا۔ دونوں مفکرین کو اسی صدی میں انگلینڈ کے اندر سیاسی انتشار کا مشاہدہ رہا تھا مگر حکومت اور انسانی فطرت کے بارے دونوں مختلف نتائج پر پہنچے۔

تھامس ہابز کے تصورات۔ @ ہابز نے اپنے تصورات کو اپنی کتاب ”لیو یتھان ( Leviathan ) میں پیش کیا۔ اپنے وقت میں انگلستان میں ہونی والی خانہ جنگی کی ہولناکی دیکھ کر“ ہابز ”کا تاثر یہ بنا کہ تمام انسان فطرتا خود غرض اور شر پسند ہیں۔ اسی بنیاد پر اس کا موقف یہ رہا کہ حکومت کی عدم موجودگی میں افراد ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں رہیں گے۔ اور یوں دنیا دہشت اور بدامنی سے پر رہے گی۔“ ہابز ”کے مطابق اسی خدشے کے پیش نظر افراد نے ایک معاہدے کے تحت اپنے بعض حقوق ایک طاقتور حکمران کو تفویض کر دینے پڑے۔ حکومت کے اس طرح قیام کے معاہدہ کو وہ“ عمرانی معاہدہ ” ( Social Contract) کہتا ہے۔

چونکہ ”ہابز“ کے مطابق عوام کے عمل کا محرک ذاتی مفاد ہوتا ہے اس لیے اس کے نزدیک ان کو کنٹرول کرنے کے لیے حکمران کے پاس مطلق اقتدار کا ہونا ضروری تھا

ہابز کے مطابق بہترین حکومت وہ ہوتی ہے جس کے پاس لیویتھان ( سمندری اژدھا) جیسی خوفناک طاقت ہو۔ ایسی حکومت اس کے مطابق مطلق العنان بادشاہت ہے جو نظم و ضبط اور اطاعت کو یقینی بنا سکتی ہے۔
ہابز اس کو ”فانی خدا“ کی اصطلاح سے پکارتا ہے

ہابز کے سیاسی نظریے کا ایک اہم نکتہ بادشاہوں کو اپنے اقتدار کے جواز کے لیے سیاسی نظام میں خدا کو درمیان میں لانے کی مخالفت ہے

وہ پہلا بھرپور سیکولر سیاسی مفکر ہے جس نے بادشاہوں کے ”آسمانی (الہی ) حق“ کے تصور کے خلاف سب سے پہلے جاندار آواز اٹھائی

ہابز کے مطابق اقتدار کسی ”الہی حق“ پر استوار نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ افراد کے مابین ایسے معاہدے کے تحت آتا ہے جس میں وہ ریاست اور یوں حکمران کو برتر حیثیت دینے پر متفق ہو جاتے ہیں

تاہم اس کے مطابق یہ معاہدہ جب ایک بار طے کیا جائے تو توڑا نہیں جا سکتا ہے یوں نتیجتاً حکومت کی طاقت، خواہ بادشاہ کی صورت میں یا پارلیمنٹ کی، مطلق ہوتی ہے

جان لاک ۔ ( 1632 تا 1704 )

”ہابز“ کے برعکس ”جان لاک“ کا انسانی فطرت کے متعلق تصور مثبت اور رجائی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ افراد تجربات سے سیکھ کر خود کو سنوار سکتے ہیں۔ اور عقل رکھنے کے باعث ان میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملات اور معاشرے کی فلاح کی دیکھ بھال کر سکیں

”ہابز“ کے برعکس ”لاک“ مطلق العنان بادشاہت کے خلاف اور نمائندہ حکومت کے تصور کے حق میں تھا۔ اس کے مطابق تمام افراد تین فطری حقوق ( زندگی۔ آزادی اور جائیداد) کے حوالے سے آزاد اور مساوی پیدا ہوتے ہیں حکو مت کا مقصد ان حقوق کی حفاظت ہونی چاہیے۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو لاک کے مطابق شہریوں کو اسے ہٹانے کا حق حاصل ہے۔

لاک کے اس نظریہ کا جدید سیاسی سوچ پر گہرا اثر ہے۔ اس کا یہ خیال کہ ”حکومت کی طاقت کا سرچشمہ عوام کی رائے یا مرضی ہے“ جدید جمہوریت کی اساس ہے ”لاک“ کے عوامی رائے یا مرضی پر استوار حکومت اور جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے حق ہونے کے تصورات نے یورپ اور امریکہ میں شہری آزادیوں کی جدوجہد کو شہ دی

مانٹیسکو۔ ( 1755۔ 1689 روشن خیالی دور کا ایک اور اہم مفکر ”۔ فرانس کا مانٹیسکو“ تھا۔ جو سیاسی آزادیوں کا علمبردار تھا۔ وہ اپنے وقت کے برطانوی حکومت کو بہترین اور سیاسی لحاظ سے متوازن ملک سمجھتا تھا۔ جہاں انتظامی اختیارات بادشاہ اور اس کے وزراء کے پاس ہیں جو ریاستی قوانین کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں اور عدل و انصاف کی ذمہ داری ججوں کی ہے جو قانون کی تشریح اور نگرانی بھی کرتے ہیں۔

مانٹیسکو اقتدار کی مختلف شعبوں میں تقسیم کو تقسیم اختیارات ( کہتا ہے۔ ( مانٹیسکو نے برطانوی نظام حکومت کو نسبتاً سادہ تر پیش کیا ہے جبکہ درحقیقت وہاں تقسیم اختیارات قدرے مختلف تھی )

اپنی کتاب On the Sprit of Law میں اس نے تقسیم اختیارات کے تصور کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مانٹیسکو کا اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر تقسیم اختیارات کسی واحد فرد یا گروہ کو حکومت پر پورا کنٹرول حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ مانٹیسکو کا قول ہے کہ بے لگام طاقت کو طاقت سے رکنا چاہیے۔ اس کا یہ تصور بعد میں چیک اینڈ بیلنس کہلایا۔ مانٹیسکو کی اس کتاب کو برطانیہ کی امریکی کالونیوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ اس کی تقسیم اختیارات اور چیک اینڈ بیلنس ”کے تصورات امریکی آئین کے اساس بن گئے۔

آزادی ( جمہوریت ) کا چیمپئین روسو @ انفرادی آزادی کا
تیسرا بلکہ سب سے بڑا علمبردار ”روسو ( Rousseau)“ 1712 تا 1777 تھا۔

روسو نے اپنے ”روشن خیال دور“ کے سیاسی مفکرین سے کئی امور / نکات میں اختلاف کیا۔ اس دور کے بیشتر فلاسفر کے مطابق عقل، سائنس اور آرٹ افراد کی زندگی بہتر بنائیں گے۔ جبکہ روسو کا خیال یہ تھا کہ تہذیب نے افراد کی فطری اچھائی کو بگاڑ دیا ہے۔

اس کا مشہور قول ہے کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر جگہ پابہ زنجیر ہے“

روسو کے مطابق اچھی حکومت صرف وہ ہو سکتی ہے جو عوام کی آزاد رائے سے قائم ہو۔ اور معاشرے کے جنرل ویل ( عمومی رائے ) کے زیر نگرانی ہو یعنی بلاواسطہ جمہوریت۔ ایسی حکومت کے تحت افراد عمومی بھلائی کے حق میں اپنی کچھ آزادی سے دستبردار ہونے پر تیار ہوتے ہیں۔ 1762 میں اس نظریے کی اپنی کتاب ”عمرانی معاہدہ“ میں وضاحت کی ہے

روسو ”کا معاہدہ عمرانی“ تھامس ہابز ”سے مختلف ہے۔ ہابز“ کے ہاں یہ معاہدہ حکومت اور معاشرے کے درمیان ”ہے جبکہ روسو کے نزدیک یہ معاشرہ اور حکومت کی تشکیل کے لیے آزاد افراد کے مابین معاہدہ ہے۔

جان لاک کی طرح روسو کا بھی موقف یہ ہے کہ ایک جائز آئینی حکومت عوام کی مرضی ہی سے بنتی ہے تاہم لاک کے مقابلے میں روسو زیادہ وسیع جمہوریت کا علمبردار ہے۔ اس کا موقف یہ تھا کہ تمام افراد برابر ہیں

اور امراء کے خطابات کو ختم کر دینا چاہیے۔
اپنے دور میں روسو کے نظریات کو خطرناک حد تک انقلابی نوعیت کے گردانے جاتے تھے کیونکہ یہ بادشاہ، چرچ اور اشرافیہ کے اختیارات کے لیے براہ راست چیلنج تھے

انقلاب فرانس میں اس کے تصورات کا موثر رول رہا تھا

روسو کے تصورات نے انقلاب فرانس کے بہت سارے رہنماؤں ( جنہوں نے 1789 میں وہاں کی بادشاہت کا تختہ الٹا دیا تھا) کو فکری بنیاد فراہم کی تھی

انقلاب فرانس کے علاوہ امریکی انقلاب آزادی اور وہاں کے آئینی تشکیل میں روسو کے نظریات بروئے کار لائے گئے۔

اپنے ہم عصر سیاسی مفکرین میں روسو کے تصورات سب سے زیادہ جمہوری، انقلابی اور موثر تھے اور یوں بجا طور اس کو جمہوریت کا چیمپیئن کہا جاسکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments