ٹی وی، منظور جونئیر اور لاس اینجلس اولمپکس


ہاکی کے حوالے سے بہت بچپن کی دھندلی سی یاد 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس ہیں۔ وہ وقت جب ہاکی کے کھلاڑی بھی سٹار ہوتے تھے۔ کلیم اللہ، حسن سردار اور کپتان منظور جونیئر۔

جن دنوں چھوٹے قصبوں کے خال خال گھروں میں واشنگ مشین اور فریج وغیرہ جیسی لگژری ہوتی تھی اللہ نے ان چیزوں سے نواز رکھا تھا لیکن ٹی وی ہمارے گھر میں شجر ممنوعہ تھا۔ اس لئے کہ ابو کو ٹی وی سے خدا واسطے کا بیر تھا ان کا خیال تھا کہ ٹی وی دیکھنے سے بچے خراب ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ دور ضیا ( زیاں ) تھا اور باپردہ قسم کے پی ٹی وی نے کتنا بھی بگاڑ لینا تھا۔ اندھیرا اجالا قسم کے ڈرامے بھی نانی اماں کے گھر بہانے سے رک کر دیکھنے پڑتے۔ یہ نہیں کہ ابو ڈرامہ نہیں دیکھتے تھے، موقع ملے تو دیکھتے تھے اور ساتھ ساتھ رننگ کمنٹری بھی کیا کرتے تھے لیکن ٹی وی گھر کے لئے خریدنا ایسے تھا جیسے کسی جرم کی اجازت لینا۔ اب سوچتا ہوں ان کے نواسے نواسیاں ہر وقت دنیا جہان کے شوز اور کارٹون اپنے اپنے علیحدہ آئی پیڈ پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

22 حد 24 انچ کا ٹی وی جس کی سکرین کے کارنر پرا سونی یا نیشنل کا سٹکر جسے اتارنا سخت گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک میز جس کے نیچے کڑھائی دار کپڑا اور پھر ٹی وی کو ڈھانپنے کے لئے بھی ایک کپڑا سلوایا جاتا کہ مٹی سے محفوظ رہے۔ ٹی وی ویسے بھی سارا دن خاموش رہتا۔ آٹھ بجے والا ڈرامہ یا نو بجے والی خبریں یا پھر کوئی میچ ہوتا تو کپڑا ہٹتا اور ٹی وی میں زندگی بھر جاتی۔ انٹینا سیٹ کرنے کی داستان علیحدہ ہوتی۔ پھر ہر ٹی وی سیٹ کا ری ایکشن بھی بہت مختلف ہوتا۔ حافظے میں ایک ٹی وی محفوظ ہے جس کے کوئی بندہ قریب جاتا تو تصویر صاف ہوجاتی اور واپس کرسی یا چارپائی پر بیٹھتے تو ”مکھیاں“ زیادہ ہو جاتیں۔ (اب نئی نسل کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ جب تصویر صاف نہیں آتی تھی تو دانے دانے سے زیادہ ہو جاتے انہیں مکھیاں آنا کہتے تھے ) ۔

ہم جس قصبے میں مقیم تھے ہمارا گاؤں اس سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ گاؤں میں بجلی ہماری ہوش میں آئی۔ گاؤں میں دو ہی برادریاں آباد تھیں، ہمارا ننھیال بھٹی برادری اور ددھیال منہاس۔ سب کی آپس میں عزیز داری تھی کوئی چاچا، ماما، خالہ، پھوپھی وغیرہ۔ بجلی آنے کے بعد گاؤں کے ابتدائی گھروں میں جب کوئی چیز خریدی جاتی تو سارا گاؤں اسے دیکھنے اور مبارک دینے پہنچ جاتا۔ ایسے ہی ایک گھر میں ٹی وی خریدا سب بچے ٹی وی دیکھنے اس گھر میں پہنچ گئے۔ پھوپھی نے تھوڑی دیر برداشت کیا پھر اٹھ کر ٹی وی یہ کہہ کر بند کر دیا کہ سارے اکٹھے ہی آ گئے ہو آدھے کل آنا، اس طرح ہمارا بجلی کا بل زیادہ آ جائے گا۔

ٹی وی کے پیچھے کی جالیوں سے جھانکنے اور اس کے اندر چلتے پھرتے انسان تلاش کرنے کا سلسلہ تو متعدد بار کرتے رہتے تھے۔ پھر کوئی بڑا بتاتا کہ یہ تصویر ہوا اور اینٹینا کے ذریعے سے آ رہی ہے تو مزید پریشان ہو کر انٹینا کو دیکھتے کہ تصویر کہاں سے اتر کر اس کے اندر جا رہی ہے۔ کبھی کبھی دوردرشن اور پی ٹی وی مکس ہوجاتا۔ تصویر پی ٹی وی کی چل رہی ہوتی اور آواز دوردرشن کی آ رہی ہوتی۔ جس دن موسم صاف ہوتا، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی تو دوردرشن کے درشن ہو جایا کرتے۔ ہفتے میں ایک دن اس پر انڈین فلم آتی تھی جو وہ پوری دیکھنے میں کامیاب ہوجاتا وہ عجب نشے میں سرشار رہتا کہ انڈین فلم دیکھ لی۔

خیر بات ہو رہی تھی لاس اینجلس اولمپکس کی جسے دیکھنے کی چاہت ان دنوں کسی بھی کرکٹ میچ سے بھی زیادہ تھی۔ میچ پاکستان میں علی الصبح کوئی دو بجے کے قریب آتا تھا۔ ابو سے خاص اجازت لی گئی کہ یہ میچ دیکھنے ہم ابا جی (امی کے ماموں جنہیں ہم ابا جی کہا کرتے تھے ) کے گھر جایا کریں گے۔ رات بارہ ایک بجے کے قریب بڑا بھائی اور میں اٹھتے اور ابا جی کے گھر کی طرف چل پڑتے۔ چوریوں کی وجہ سے ان دنوں رضاکار فورس کا پہرا لگا ہوتا۔ سارے قصبے کے لوگ ہمیں جانتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب (ابو کی فارمیسی تھا اور اللہ نے ہاتھ میں شفا رکھی تھی، سارے علاقے میں بڑے ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھے ) کے دونوں بیٹے اس وقت میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ پھر بھی ڈرتے سہمے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے آدھے کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے اور ابا جی کے گھر پہنچ جاتے۔

سیمی فائنل دیکھا، پاکستان نے آسٹریلیا کو ایک صفر سے ہرایا تھا اور پھر فائنل میں جرمنی کی مضبوط ٹیم۔ مقررہ وقت میں می ایک ایک گول سے برابر رہا۔ فاضل وقت میں کلیم اللہ نے دوسرا گول کر کے پاکستان کو اولمپک چیمپیئن بنایا تھا۔ ہاکی کے کپ روٹھے تو عرصہ ہو گیا اب 1984 اولمپکس کے گولڈ میڈل کا تحفہ دینے والی اور خوشیاں بکھیرنے والی ٹیم کے کپتان منظور جونیئر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہی منظور جونیئر جسے بیس منٹ کا کھلاڑی کہا جاتا لیکن انہی اولمپکس میں منظور جونیئر پورا ٹائم جان لڑاتے اور اپنی سائیڈ سنبھالے رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments