قدرتی آفت یا انسانی المیہ


موہنجو ڈیرو کبھی ایک ایسا ہنستا بستا ایسا شہر تھا جس کا تصور آج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت گھر، صاف ستھری سڑکیں، سوئمنگ پول، سکول اور کالج جو ہزاروں سال پہلے دریائے سندھ کے کنارے آباد اس شہر میں تھے اب کھنڈرات کی شکل میں اس تہذیب کی عروج و زوال کی داستان بن گئے ہیں جس کو ہم سندھی تہذیب یا انڈس ویلی سویلائزیشن کے نام سے جانتے ہیں۔ سین، سن یا سندھ سنسکرت اور اس سے پھوٹنے والی ہند آریائی زبانوں میں دریا کو کہتے ہیں جس پر وادی مہران کا نام سندھ پڑ گیا ہے۔

سندھی تہذیب صرف موہنجو ڈیرو، ہڑپہ یا ٹیکسلا کے دریافت ہونے والے کچھ کھنڈرات تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ کابل سے بنگال اور تبت سے ہند ساگر تک کی انسانی تہذیب انڈس ویلی سویلائزیشن کے نام سے موسوم ہے جس کی نسبت سے اس سرزمین کو اہل مغرب نے انڈیا کہا تھا۔

انسانی تہذیب کا آغاز دریا کنارے ہوا جہاں زرخیز زمین اور پانی کی فراوانی نے کاشتکاری اور بودوباش میں مدد دی۔ فرات، نیل، گنگا، جمنا اور سندھ کے دریا ہی بابل، مصر، ہندی اور سندھی تہذیب کے گھر ہیں۔ انسان کا دریاؤں کی پوجا سے ان پر بند باندھ کر بجلی پیدا کرنے اور رخ موڑنے تک کے ارتقائی سفر کو ہی انسان نے اپنی ترقی سے تعبیر کیا ہے جس نے انسانی ثقافت، سیاست، معاشرت اور معیشت کو وسعت دے کر جدید ریاست کے تصور کو جنم دیا۔

انسان اور دریا کا تعلق باہمی احترام اور عدم مداخلت کا متقاضی ہے جو سلامتی اور تحفظ کا ضامن ہو۔ دریا انسان کو سونا، چاندی، لکڑی، پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرتا ہے اور انسان دریا کے آزادی سے بہنے کی جگہ میں مداخلت سے اجتناب کرتا ہے۔ تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب بھی انسان نے دریا کے بہاؤ میں مداخلت کی ہے انسان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے یا دریا نے اپنا رخ موڑ کر زمین کو بنجر کر دیا ہے جو موہنجو ڈیرو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کے کھنڈرات کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔

وقت کے ساتھ انسان اور دریا کے درمیان باہمی احترام اور عدم مداخلت کا تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ انسان نے بند باندھ کر دریاؤں کا رخ موڑ دیا یا پھر ان کے بہاؤ کے راستے کو مسدود کیا اور اس کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔ دریائے نیل پر بند باندھنے والوں نے اپنی کامیابی پر جشن منایا مگر پانی کی مقدار بڑھ جانے کے باوجود زمین کے دریا میں بہہ کر آنے والی زرخیزی سے خالی ہونے کی وجہ سے مصر جو سلطنت روم کو خوراک مہیا کرتا تھا خود قحط کا شکار ہوا۔

ہمارے ہاں بھی دریاؤں کے ساتھ ایسا ہی تعلق قائم رہا۔ دریا کے بہاؤ کے راستے میں موسمی کاشتکاری اور گلہ بانی ہوتی رہی مگر مستقل آباد کاری سے اجتناب کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں گول پتھر اور ٹیمرسک کا درخت پایا جاتا ہو اس کو دریائی یا سیلابی زمین سمجھا جاتا تھا چاہے۔ ایک کہاوت ہے کہ دریا اپنے انڈے {گول پتھر} ڈھونڈ کر پھر آتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں دریا کی زمین کو کچا کہا جاتا ہے جہاں مستقل آبادکاری نہیں کی جاتی تھی۔ گلگت، ہزارہ اور ملحقہ علاقوں میں ایسی زمین کو کھاری کہا جاتا ہے جہاں مستقل آبادی نہیں ہوتی ہے۔

بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے لئے خوراک اور رہائش کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دریا، پہاڑ، صحرا اور وہ تمام جگہیں جن کو پہلے غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا اب آبادیوں میں بدل گئیں۔ کچھ عرصہ خشک سالی یا دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے تو لوگ دریا کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے ہیں مگر جب بھی پانی کا بہاؤ اپنی مقدار سے تجاوز کرتا ہے تو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ یہ عمل بار بار دیکھنے کو ملتا ہے جس کو ہم قدرتی آفت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ نظام قدرت میں انسانی مداخلت کا شاخسانہ ہے۔

ویسے تو دنیا برفانی دور سے موجودہ حالت تک پہنچی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کرہ ارض اپنی برفانی حالت سے موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں تبدیل ہوا ہے اور درجہ حرارت میں یہ تبدیلی ایک آہستہ اور مسلسل عمل تھا۔ کرہ ارض کے گرد ایک ہالہ{اوزون} بنا ہوا ہے جو سورج سے خارج ہونے والی زہریلی شعاؤں اور گرمی کی انتہائی حدت سے زمین کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔ زمین کے اندر درجہ حرارت گرم رہتا ہے مگر سطح زمین سے جیسے ہم باہر نکلتے ہیں یا عام اصطلاح میں اوپر کی طرف جاتے ہیں تو درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی یا ہوائی جہاز کی انتہائی بلندی پر درجہ حرارت بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی ہم زمین سے باہر خلاء کی طرف بڑھتے ہیں تو درجہ حرارت پھر سے بڑھ جاتا ہے اور اس میں اب زہریلی شعائیں اور گیس بھی شامل ہوتی ہے۔ مگر زمین کے گرد بنا ایک ہالہ زہریلی شعاؤں اور گیس کو روک لیتا ہے جس سے کرہ ارض پر زندگی کی بقاء ممکن ہوتی ہے۔

صنعتی انقلاب کے بعد ایندھن خاص طور پر کاربن اور میتھین جیسی گیس خارج کرنے والے مواد کے بے دریغ استعمال سے زمین کے گرد اوزون کے ہالہ کو نقصان پہنچا ہے جس سے سورج سے نکلنے والی نا موافق شعائیں اور گیس زمین کے اندر داخل ہو رہی ہیں جس کی وجہ زمین پر درجہ حرارت میں تبدیلی کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے جو موسمیاتی تبدیلی پر منتج ہو تا ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ صنعتی انقلاب یورپ میں آیا جہاں لوگوں نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ صنعتی ترقی سے یورپ، امریکہ، جاپان اور چین جیسے ملک مستفید ہو رہے ہیں مگر اس کے نقصانات کا شکار غریب اور غیر صنعتی ملک ہو رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے جن کا کاربن کے اخراج میں کردار بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کے لئے موسمیاتی تغیر سے پاکستان میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کا اندازہ سالانہ 26 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے جو حکومت کی سالانہ آمدن یا سالانہ ترقیاتی اخراجات کے برابر رقم بنتی ہے۔ اگر نقصانات متواتر ہوتے رہے تو ہر بار بیرونی امداد کا حصول ممکن نہ ہو پائے گا اور بالآخر یہاں کے لوگوں کو ہی خود اپنے نقصانات کو برداشت کرنا پڑے گا۔

موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کو قومی دفاع کے برابر اہمیت دینے کی سفارش کئی سالوں سے دی جاتی رہی ہے جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ 2005 ء کے زلزلے کے بعد نیشنل اور پراونشل ڈیساسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز یا این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایز بنا دی گئی ہیں جن کے کردار کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ترقیاتی منصوبے خاص طور پر سڑکوں، پلوں، عمارتوں، بجلی گھروں اور بجلی کی ترسیل کے نظام کے منصوبوں کا ماحولیاتی جائزے کے علاوہ قدرتی آفات سے ممکنہ تحفظ کی کسوٹی سے بھی گزارنا ہو گا۔ ایسی جانچ قانون سازی کے ذریعے لازمی قرار دینے کی ضرورت ہے جو الگ سے ہو یا موجودہ ماحولیاتی تحفظ کے قانون انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے ممکن بنایا جائے۔ اس قانون کے تحت ہر نئے منصوبے کی منظوری کے لئے لازم ہو کہ اس کا ممکنہ قدرتی اور مصنوعی حادثات سے بچاؤ کا ماہرین نے جائزہ لیا ہو اور موزوں قرار دیا ہو۔ اس قانون کا اطلاق بلدیاتی، شہری اور مقامی حکومتوں کے ذریعے نجی املاک پر بھی ہو۔

اس سال کی تباہ کاری ایک المیہ ضرور ہے مگر ماہرین کی رائے مستقبل کے بارے میں کوئی خوشگوار نہیں جس کے مطابق ایسے واقعات اس سے بھی بڑے پیمانے پر ہونا بعید از قیاس نہیں۔ مستقبل میں سیلاب سے مزید تباہی سے بچنے کے لئے کم از کم اس سال کے سیلاب کی انتہائی سطح کو برقرار رکھ کر نئی تعمیرات اس سے باہر کی جائیں۔ سندھ اور بلوچستان جہاں زیادہ تر نقصانات کچے مکانات کی وجہ سے ہوئے ہیں وہاں لوگوں کو بہتر اور مضبوط مکانات بنانے میں مدد دی جائے۔

قدرتی آفات میں نقصانات ایک انسانی المیہ کی شکل میں تب بدل جاتے ہیں جب ان کو مشیت ایزدی قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان نقصانات کے ازالے کی ترکیب کی جائے توان سے بچنا ممکن ہے اور یہی ایک راستہ ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan