سیلاب کا عذاب


2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کو 2004ء کے سونامی، 2005ء کے کشمیر کے زلزلے اور 2010ء کے ہیٹی کے زلزلے سے ہونے والے مجموعی نقصان سے زائد شمار کیا گیا تھا۔ جس کے ازالہ اور تباہ حال لوگوں کی مکمل معاشی اور معاشرتی بحالی میں ایک لمبا عرصہ لگا تھا۔ جبکہ آخر جون 2022 سے جاری موجودہ مون سون بارشوں اور اس کے نتیجہ میں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو ایک مرکزی وزیر نے اس سے بھی زیادہ تباہ کن کہا ہے۔ این ڈی ایم اے کی 30 اگست کی روزانہ رپورٹ (اب تک آخری) کے مطابق نقصانات کی تفصیل یہ ہے۔

اموات 1162، زخمی 3554، تباہ سڑکیں 5063 کلو میٹر، تباہ پل 243، تباہ گھر 10 لاکھ سے زیادہ، ضائع شدہ جانور 7 لاکھ سے زیادہ، آفت زدہ قرار دیے گئے ضلع 72، سیلاب سے متاثرہ آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ۔ یعنی ملک کی کل آبادی کا 15 فی صد۔ دیگر ذرائع کے مطابق 20 لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں اور باغات بھی ان سیلابوں کی نذر ہوئے۔ متاثرہ اضلاع کی تعداد 80 ہو گئی ہے اور کل متاثرین میں سے 66 لاکھ انتہائی متاثر ہیں۔

سامان عبرت: یہ اعداد و شمار جہاں اس بڑے انسانی المیہ پر سب کو دکھی کرتے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس تباہی سے متعلق بعض تصاویر اور بھی عبرت کا سا مان ہیں۔ جیسے ایک باپ کا رسی سے بندھی بیٹے کی لاش کو گھسیٹ کر پانی سے نکالنا، پھیلے پانی پر بنے عارضی تنگ پل سے باپ بیٹی کا پھسل جانا اور پھر بیٹی کا لاش ہو جانا، بڑی بڑی بظاہر مضبوط عمارتوں کا تنکوں سے بنے گھروں کی طرح لمحہ بھر میں منہ زور پانی میں بہہ جانا، بہتے پانی میں خود کو بہہ جانے سے بچانے کی کوشش کرتے مرد وزن، گردن تک پانی میں ڈوبی ایک عورت کا دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پر ایک برتن میں صرف اپنے کتے کو سنبھالے آگے بڑھنا، کمر سے اوپر تک پانی میں ڈوبے اور سروں پر اٹھائی چارپائیوں میں گھر کے اثاثے سمیٹے نئے ٹھکانوں کے متلاشی خاندان، اور بے شمار وہ تصویریں جن میں پتھرائے ہوئے انسانی چہروں پر انتہائی کس مپرسی، بے چارگی، احساس محرومی، سب کچھ جاتے رہنے کا صدمہ، بے بسی اور نا امیدی کی تاریکیاں موت کے سائے کی طرح ثبت ہیں۔

اور دوسری طرف سیلاب زدگان میں پچاس پچاس روپے بانٹ کر ایک مرکزی وزیر کا تالیاں بجوانا، محفوظ سرکاری عمارتوں میں حالیوں موالیوں کے جھرمٹ میں ارباب اقتدار کا تباہ حالوں سے اظہار ہمدردی، اسی دوران اہل خانہ کے ساتھ نیاگرا آبشار کی سیر کرتے اسپیکر قومی اسمبلی، ابھی کچھ عرصے پیشتر اپنے مفاد کے لئے اربوں روپوں میں ضمیر خریدتے سیاست دانوں کا ان تباہ حالوں کے لئے پوری دیدہ دلیری سے اپنوں اور بیگانوں کے آگے ہاتھ پھیلانا اور سیلاب زدگان کی امداد کے سامان سے بھرے ٹرک کی اندرون سندھ غیر متاثرین کے ہاتھوں لوٹ۔ ان میں سے ہر ایک تصویر الگ الگ ایک سامان عبرت ہے۔

زبان خلق: بعض نے اس تباہی کو مغربی ممالک کی مثال دے کر صرف بد انتظامی کہا ہے۔ اچھے انتظام سے مسائل ضرور کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کو بھی تمام اچھے انتظام کے باوجود سمندری طوفانوں، زلزلوں اور کرونا جیسی وباؤں کا سامنا رہتا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ بلاؤں کی بعض وجوہ اچھے انتظام سے بالا ہیں۔

عام طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس تباہ کن سیلاب کو عذاب کہا جا رہا ہے اور اس کا سبب اللہ کی ناراضگی اور علاج گناہوں سے توبہ کرنے میں۔ تاہم بعض نے اس سے اختلاف بھی کیا اور سوال اٹھایا ہے کہ اگر یہ گناہوں کی سزا ہے تو دولت مند اس سے کیوں محفوظ ہیں۔ جبکہ وہ زیادہ گناہ گار ہیں۔ یہ سوال عام جرم و سزا کی بحث ہے۔ جبکہ سیلاب کا یہ عذاب اپنے قرائن سے ان عذابوں جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی تضحیک، ہنسی، ٹھٹھے اور اہانت کے جرم میں نازل ہوتے رہے ہیں۔

جرم و سزا کا قانون:انسان اپنے سب گناہوں اور احکامات الٰہی کی خلاف ورزیوں پر سزا وار ہے۔ سوائے ان کے جنہوں اللہ معاف فرما دے۔ دین حق کے احکامات کی جن خلاف ورزیوں کی سزا مقرر ہے ان حدوں کا نفاذ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور جو ریاستی قوانین کے تحت جرم ہیں ان کی سزا دہی ملکی قانون کے مطابق بھی ہوتی ہے۔ ان گناہوں کا بد نتیجہ آخرت میں آگ کا عذاب ہو گا۔ تاہم اکثر ان گناہوں کا کسی قدر پاداش اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ انفرادی بد نتیجہ دنیوی سزا ہوتا ہے نہ کہ عذاب الٰہی۔ اور اس میں امیر غریب کا کوئی سوال نہیں۔

عذاب الٰہی: عذاب الٰہی ایک مختلف حقیقت ہے۔ یہ اجتماعی ہوتا ہے اور اس کا سبب سرکشی، شوخی اور شرارت ہوتا ہے۔ قرآن کریم ان اقوام کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے تکبر اور شوخی سے اللہ کے فرستادوں اور نشانات الٰہی سے ٹھٹھا کیا اور ان کی اہانت کی اور اس کے نتیجہ میں اللہ کا غضب بھڑکا اور اس کا عذاب نازل ہوا۔ اکثر اپنے دنیوی معاملات میں ہوشیار ہونے کے باوجود، دینی معاملات میں سنی سنائی باتوں پر عامل اور دوسروں کے پیچھے چلنے والے کم علم اور مفلوک الحال افراد کے بے قابو ہجوم ایسے واقعات میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس لئے جب ان کا بد نتیجہ نکلتا ہے تو یہی زیادہ سزاوار بھی ہوتے ہیں۔

عذاب سے بچنے کی قرآنی راہ: قرآن کریم میں بطور اصول فرمایا گیا ہے کہ
(الانفال: 34 ) ترجمہ: اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں سزا دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔
یعنی گناہوں کی معافی چاہنا اور غلط کاموں کو چھوڑ کر راہ راست پر چلنا عذاب کو ٹال دیتا ہے۔

وہ طبعی قوانین جنہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر حوادث کا باعث کرتی ہے وہ استغفار کرنے والوں کے لئے خیر و برکت کا سامان ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ بات تھی جو حضرت نوح ؑ اپنی قوم کو سمجھاتے رہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے

ترجمہ :پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔ (نوح: 11۔ 13 )

یعنی اگر وہ بخشش چاہتے تو وہی بارش جس نے انہیں ڈبویا ان کی ترقی اور خوشحالی کی نوید ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments