خود داری کا قتل


یوں تو ہم سب پاکستانی خودی خود داری غیرت بہادری اور جرات کے دعویدار ہے باپ دادا کے قصے کہانیاں بیان کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں مگر بقول اقبال۔ تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔ اور ظفر علی خان کا یہ شعر تو شاید ہم سب کو یاد ہے کہ۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہوں جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کیا ہم اپنی حالت بدلنے کی فکر کر رہے ہیں۔

مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ فکر سے مراد صرف سوچنا نہیں ہے سوچ کر عمل کرنا ہے۔ ہم عمل سے بیگانہ، محنت سے عاری جدوجہد سے ناآشنا، ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے ماہر، خیالوں کی دنیا میں رہنے والے خودساختہ شہزادے، شارٹ کٹ استعمال کر کے کامیابی کی انتہا پر پہنچنے کے شوقین۔ بقول اباسین یوسفزئے۔ دوی خپل منزل تہ پہ لنڈو دہ رسیدو قائل دی۔ پختانہ زکہ پہ سمسور پٹی کی لار اوباسی ( یعنی پشتون جوان اپنی منزل پر جلد پہنچنے کے قائل ہیں جس کے لئے وہ لہلہاتے کھیت میں رستہ بناتے ہیں یہ نہیں سوچتے ہیں کہ اپنا دو چار منٹ بچانے کے لئے وہ دوسروں کا نقصان کر رہے ہیں)

مشکلات قوموں پر آتی ہے مگر جو حقیقت میں خوددار قوم ہوتی ہے وہ ان مشکلات سے سیکھتی ہے اور اس کو اپنے لئے امتحان سمجھ کر اس میں کامیابی کی جدوجہد کرتی ہے۔ جبکہ ہم اپنے اوپر آئے ہوئے امتحان کو کمانے اور بچانے کا سنہرا موقع سمجھ کر دوسروں کے لئے امتحان بنا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ہزار پانچ کا زلزلہ، دو ہزار دس کا سیلاب اور اب دو ہزار بائیس کا سیلاب قومی سانحات اور پوری قوم کے لئے امتحان سے کم نہیں مگر نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہم ان امتحانوں میں بحیثیت قوم بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

ہمارے مخیر حضرات نے دل کھول کر دیا ہے ہمارے رضاکاروں نے جان لڑا کر کام کیا ہے، ہمارے مڈل کلاس میں سے ہر دوسرے تیسرے نے اپنی بساط سے بڑھ کر متاثرین کی مدد کی ہے۔ مگر نہ تو ہمارے سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس قومی اور عالمی امداد کو حقیقی متاثرین تک عدل و انصاف کے ساتھ پہنچانے میں کامیاب ہوئے نہ ہی متاثرین نے اس تضحیک آمیز امداد کو رد کر کے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے۔ میں تمام متاثرین کی بات نہیں کرتا ہوں کیونکہ استثناء ہر جگہ ہوتی ہے ہو سکتا ہے چند سو یا چند ہزار لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہو۔ مگر اکثریت کی فریادیں گلے شکوے اور آہ و بکا ہم سب کے سامنے ہیں۔

موجودہ سیلاب میں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے وہاں تو ابھی تک ریسکیو کا کام چل رہا ہے۔ بحالی کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا مگر پختونخوا کے نوشہرہ اور چارسدہ میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے نسبتاً کم تباہی ہوئی ہے۔ ان دونوں اضلاع سے ملحقہ پشاور اور مردان میں ہزاروں ایکڑ خالی زمینیں بھی ہے اور ان دونوں شہروں کے عوام، فلاحی تنظیمیں اور حکومت ان متاثرین کی ہر قسم کی امداد کے لئے کافی تھیں اس کے باوجود ان چند ہزار متاثرین نے جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر ڈیرے ڈال کر گداگری اور اور بے ہمتی کی نئی مثالیں قائم کی۔

مہذب اور منظم اقوام اپنے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مدد کرتے ہیں ہر کام اپنے ہاتھ سے خودساختہ انداز میں کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ مگر ہم سب نے ایک منظم قوم اور مہذب معاشرے کی بجائے ایک ہجوم کی صورت میں خود اپنے ہی ہاتھوں سے مدد پہنچانے کی کوششیں کی جس کی وجہ سے سڑک کنارے بیٹھے افراد یا آبادیوں کو دس گنا زیادہ سامان ملا جبکہ سڑک سے دور حقیقی متاثرین صاف پانی اور خوراک کو ترس گئے۔

جہاں تک سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی جانب سے نقد امداد کا تعلق ہے میں اسے کسی بھی صورت ملک و قوم کے لئے فائدہ مند نہیں سمجھتا۔ بد قسمتی سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے شروع ہونے والا سلسلہ احساس پروگرام سے ہوتا ہوا لنگر خانوں تک پہنچ گیا۔ اگر چہ اس سے بالکل عارضی بنیادوں پر چند ہزار افراد کو تو فائدہ ہوا ہو گا مگر اس نے اچھے بھلے محنت کش افراد کی خودداری کو ختم کر کے انہیں خیراتی کھانا کھانے کا عادی بنایا۔ اس سکیم نے قومی سطح پر گداگری کو فروغ دیا اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کے کام کو سرکاری سرپرستی کی وجہ سے وہ جھجک وہ شرم بھی جاتا رہا جو مفت کا کھانا ملنے پر خود دار لوگ محسوس کرتے تھے۔

اگر ہم اپنے قوم کی مدد بھی کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں گداگری اور خیرات کی عادت سے بچا کر ان کی خودداری کو بھی زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ متاثرین میں مفت رقم بانٹنے کی بجائے ہر ایک کو ضرورت کے مطابق قرض حسنہ فراہم کرے۔ جس کی مقدار پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے فی خاندان تک ہو۔ اس رقم سے وہ اپنی فوری ضروریات پوری کرتے ہیں، کوئی بھی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہیں یا اپنے تباہ شدہ کاروبار کو بحال کرتے ہیں یہ ان کا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔

ایک لاکھ تک کا قرضہ ذاتی ضمانت پر جبکہ اس سے زیادہ کے لئے کوئی بھی دو پڑوسی افراد کی ضمانت قبول کی جائے۔ اس مقصد کے لئے ملک بھر میں اس قسم کی کامیاب سکیم چلانے والی اخوت فاونڈیشن کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ باقی نیک نام اداروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لاکھوں ایسے افراد جو حکومت کے اعلان کردہ بیس پچیس ہزار کے حاجت مند نہیں ہے وہ قرض کے لئے اپلائی نہیں کریں گے، جس کا فائدہ باقی حاجت مندوں کو پہنچے گا۔

اور دوسری بات یہ کہ سال ڈیڑھ سال بعد اس رقم کا جتنا بھی حصہ واپس وصول ہونا شروع ہو جائے اس کو مزید ضرورت مندوں کو دیا جاسکتا ہے تاکہ اس سکیم کو سرکاری سرپرستی میں ایک مستقل پراجیکٹ کے طور پر چلایا جا سکے۔ لیکن یاد رہے کہ سرکاری سرپرستی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس مقصد کے لئے نیا محکمہ بنا کر من پسند اور چہیتوں کو نوکریاں دی جائے۔ اس کا مقصد بے داغ فلاحی اداروں کو رقم فراہم کر کے اس پر چیک رکھنا ہے۔ تاکہ قوم کو گداگری سے نجات دلا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے خود دار اور دوسروں کی مدد کے عادی بنایا جا سکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments