حالیہ سیلاب، تباہ کاریاں اور کرنے کے کام


پاکستان سیلاب ایک بہت بڑی ناگہانی آفت قرار پا چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں، ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ اور درختوں کی کٹائی کے باعث موسمیاتی تبدیلی میں اگرچہ اپنا حصہ ڈالتا ہے جو بہت زیادہ تو نہیں لیکن اس کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے، اپنی زندگی میں تین بڑی قدرتی آفات پاکستان پر ٹوٹتی دیکھی ہیں۔ ایک 2005 ء میں کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے والا تباہ کن زلزلہ، دوسرا 2010 اور حالیہ سیلاب۔

ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے مزید 57 افراد جاں بحق ہو گئے اور یوں اموات کی مجموعی تعداد 1265 ہو گئی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے تازہ اعداد شمار کے مطابق سندھ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 38، خیبر پختونخوا 17 اور کشمیر و بلوچستان میں ایک ایک ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 22 مرد، 18 خواتین اور 17 بچے شامل ہیں۔

سندھ میں جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 470 اور خیبر پختونخوا میں 385 ہو گئی ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان میں 257 اور پنجاب میں 188 افراد جاں بحق ہوئے۔

سیلاب اور بارشوں کے باعث گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والے ناگہانی واقعات میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہزار 577 ہو گئی، جس میں سب سے زیادہ تعداد 7 ہزار 204 سندھ سے رپورٹ ہوئی ہے، اب تک مجموعی طور پر 14 لاکھ 27 ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق 7 لاکھ 35 ہزار 584 مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں شدید متاثر علاقوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

سندھ میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد دل دہلا دینے والی واقعات ہیں، ہر چہرہ غمگین اور دکھی دکھائی دیتا ہے، کوئی بھوکا ہے تو کسی کے پاس پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں، کسی کے پاس سر چھپانے کے لیے آشیانہ نہیں تو کسی کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے بھی نہیں، غریب تو غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید پوش خاندان بھی مخیر و فلاحی اداروں کی امداد کے منتظر ہیں۔

حالیہ تباہی کے بعد ہمارا نظام بے نقاب ہو گیا ہے۔ سیلاب زدگان کے مسائل اور ان کے حل کے لئے حکومتیں بے بس نظر آ رہی ہیں، ہر طرف ناکامیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

متاثرین کے حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب تک سرکاری سطح پر سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کا کیا کام ہوا، متاثرین کو سر چھپانے اور کھانے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی امداد بھی کی جا رہی ہے یا فلاحی ادارے ہی اب بھی نمایاں ہیں، ان کی بحالی کے لیے سرکار کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔

اس وقت سیلاب متاثرین کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہو وہ مہیا کی جائے یعنی گیس سلنڈرز ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے، پینے کے صاف پانی کا انتظام اور اس کے لیے کو لرز بہت کام کی چیز ہے۔ آگ جلانے کے لیے لائٹرز، خشک دودھ اور اس طرح کی دیگر بہت سی چیزیں جو بہت بنیادی ضرورت ہے اس کے علاوہ سولر پینل، چارپائیاں، بستر، مچھردانیاں، مچھروں سے حفاظت کے اسپرے سمیت دیگر کئی ایسی کئی چیزیں ہیں۔

سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی مچائی ہے اس لیے کوئی ایک ادارہ یا حکومت اکیلے یہ کام نہیں کر سکتی ہے اس لیے ہم سب کو مل کر اور سیاست و بالائے طاق رکھ کر امدادی سرگرمیوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہو گا۔

اس مشکل وقت میں ہم اپنے بہن بھائیوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اس لیے ہم سب کو مل کر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کرنی چاہیے۔ دیے دے دیا جلانا چاہیے اور ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments