سیلاب سے متاثرہ سندھ اور حکومتی بے حسی
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں 10 سر فہرست ممالک میں شامل ہیں۔ موجودہ سیلابی صورتحال انہی موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی تباہی کا ایک نمونہ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا ، سندھ، اور بلوچستان سیلاب متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں۔ مختلف اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا 70 % علاقہ اس سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ جس میں سے بلوچستان اور سندھ سر فہرست ہیں۔
سندھ پروینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی 25 اگست کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں سیلاب سے 339 اموات ہوئیں اور 973 لوگ زخمی ہوئے (مرنے والوں میں 117 مرد، 36 خواتین، اور 108 بچے شامل ہیں ) ۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق صوبے بھر میں سے 97، 260 مویشی سیلاب میں یا تو بہ گئے یا پھر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صوبہ سندھ میں سیلاب سے 1، 91، 030 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور، 3، 90، 070 گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ تباہی کہ اثرات ان کی سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔ اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 10 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ان سیلاب کی وجہ سے۔ اسی طرح سے ان سیلاب متاثرہ علاقوں کو مکمل بحالی کی جانب آتے ہوئے کم و بیش 10 سے 15 سال کا طویل عرصہ درکار ہو گا جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورتحال ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو سندھ حکومت کی جانب سے آفت زدہ قرار دیے جانے کا اعلان کیا۔ شرجیل انعام میمن کے مطابق سندھ میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس میں، حیدرآباد ڈویژن میں 25، 812 گھر مکمل تباہ ہوئے اور 31، 684 گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے اور 830 مویشی بھی جان سے گئے۔ شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں، 23000 گھر مکمل اور 54، 962 گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے اور 696 مویشی بھی جاں سے گئے۔
ایک اندازے کے مطابق صوبہ سندھ میں اس سال 800 % زیادہ بارشیں ہوئی جس کی وجہ سے یہ تمام تباہی آئی۔ تباہی کی بنیادی وجہ، سندھ میں سہولیات کا نا کافی ہونا تھا۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں پانی کی نکاسی کا نظام ناقص ہے جس کی وجہ سے تھوڑی سی بارش کی صورت میں بھی سندھ کے باسیوں کو ہفتوں ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے، معمولات زندگی معمول پر لانے کے لیے۔ ایک خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سندھ میں موجودہ بدحالی اور تباہی کی بنیادی وجہ صرف معمول سے زیادہ بارشیں ہیں، جبکہ وہ پانی جو دیگر علاقوں سے ہوتا ہو آ کر دریائے سندھ میں شامل ہوتے ہیں یا بذات خود دریائے سندھ کی سیلابی حالت سندھ میں مزید تباہی لائے گی۔
ماہرین کے مطابق دریائے سندھ میں اس وقت اونچے درجے کا سیلاب ہے جو کہ ابھی تک سندھ کے علاقوں میں داخل نہیں ہوا۔ دریائے سندھ کا یہ سیلاب سالوں پرانے گدو بیراج کے ذریعے ایشیا کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے مگر خستہ حال ایریگیشن سسٹم میں جا کر تقسیم ہو جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں سندھ کی تقریباً تمام نہروں میں شگاف پڑ چکے ہیں، تقریباً تمام دریاؤں پر موجود بند یا تو ٹوٹ چکے ہیں یا خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اور سونے پر سہاگا یہ کہ سندھ حکومت صرف تصویروں اور تقریروں میں مصروف ہے۔ سندھ حکومت کی یہ بے حسی اور دریائے سندھ کا یہ اونچے درجے کا سیلاب سندھ کے باسیوں کے لیے مزید تباہی لے کر آئے گا، جس کے متحمل سندھ کے باسی اس وقت قطعی طور پر نہیں ہو سکتے۔
ماہرین آبپاشی کے مطابق موجودہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے ملک میں تمام فصلوں کا نقصان ہوا، لیکن سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا جہاں پر تقریباً 70 % تیار فصل تباہ ہو گئی، جس میں سب سے زیادہ متاثر کپاس کی فصل ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں سیلاب کے بعد بھی فصلوں کا صرف 20 % حصہ تباہ ہوا۔ موجودہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں مزید مہنگائی ہوگی اور اناج کی کمی کا سامنا بھی کرنا ہو گا جس کے بارے میں ابھی تک سوچا نہیں جا رہا۔
سیلابی صورتحال کی وجہ سے سندھ بھر میں مواصلاتی نظام درہم بر ہم ہو چکا ہے۔ سندھ بھر کے مختلف اضلاع کا زمینی رابطہ دوسرے اضلاع سے مقطع ہو چکا ہے۔ بین الاصوبائی آمدورفت مختلف مقامات سے تعطل کا شکار ہے۔ بجلی کی فراہمی کا نظام، بجلی کے کھمبے گرنے اور گرڈ سٹیشنوں میں پانی داخل ہونے کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔
سندھ بھر کے حکمران عوام کی خدمت کی بجائے سیاست میں مصروف ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود مختلف لوگوں کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ امداد صرف اس بنیاد پر دی جا رہی ہے کہ اگر حلف لیا جائے کے آپ اگلے الیکشن میں ووٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیں گے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں امدادی سامان کی تقسیم میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جہاں مختلف شہروں میں موجود وڈیروں اور سیاستدانوں نے امدادی سامان اپنے گھروں اور گوداموں میں ذخیرہ کر لیا تھا، عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ گوداموں پر دھاوا بول کر امدادی سامان بازیاب کروایا اور متاثرین میں تقسیم کر دیا۔
جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سندھ حکومت کے ایک پٹواری نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اعلان شدہ امدادی رقم جو کہ 25، 000 روپے ہے میں سے بھی صرف 23، 000 روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں متاثرین میں اور اس حوالے سے اعلی عہدیداران کو اطلاع کر دی گئی ہے مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے اب تک سندھ پر لگاتار حکومت کر رہی ہے مگر سندھ میں ترقی کا کوئی قابل قدر منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ سیلاب کے اس مشکل وقت میں جب قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو اپنے بیرونی دورے منسوخ کر چکے ہیں۔ اس دوران سپیکر قومی اسمبلی و سابق وزیراعظم رکن پیپلز پارٹی راجہ پرویز اشرف کی کینیڈا میں سرکاری دورے پر سیر و تفریح اور نیاگرا فال آبشار پر تفریح کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ کے عہدیدار منظور وسان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جس میں وہ سیلاب متاثرہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تشبیہ دے رہے ہیں اور کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہاں بھی بنگلے اسی طرح پانی کے درمیان ہوتے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب وہ سیلاب متاثرہ علاقے میں پہنچتے ہیں اور لوگ ان سے سلام کرنے کے لیے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہاتھ جھٹک کر ہاتھ ملانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ کے ہی ایک عہدیدار اور جاگیردار گیلانی صاحب کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں انہیں سیلاب متاثرہ علاقے میں ٹھاٹھ سے سگریٹ سلگائے، کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے اور اپنے جوتوں کو منرل واٹر سے صاف کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تمام عوامل پر عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ان تمام سیاستدانوں کے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ماہرین صحت نے سیلاب متاثرہ علاقوں کے حوالے سے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان علاقوں میں وبائی امراض جیسا کہ ہیضہ، ڈائریا، اور ڈینگی بخار جیسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں اور 50 لاکھ تک لوگ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا سیلاب کے حوالے سے بیان سامنے آیا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ مشکل کہ اس وقت میں سیاست کی بجائے متاثرین کی مدد کی جائے کیونکہ سیاست عوام سے ہی منسلک ہے۔ مگر آصف زرداری کے اپنے صوبے میں اپنی ہی حکومت کا اس بیان پر تضاد نظر آتا ہے۔ خدارا سندھ حکومت اس مشکل حالات مین عوام کا کچھ سوچے اور متاثرین کی مدد کرے اور ان کی بحالی میں مدد کرے۔
- گندھارا تہذیب کا قدیم ورثہ اور پاکستان - 17/10/2022
- سوات کا امن اور خارجی سازشیں - 14/10/2022
- عمرانی فتنہ اور سائفر کہانی - 02/10/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).