بندر کی کہانی اور مصنوعی نظریات کی اسیر خارجہ پالیسی


مصنوعی تصورات کہیں کا نہیں چھوڑتے ہیں۔ ایک جنگل میں بندروں کا ایک ٹولہ رہا کرتا تھا۔ جنگل میں پھلوں کی بہتات تھی سو ان کی زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ شومئی قسمت وہاں پر ایک سائنسدان اپنی بیٹی سمیت تحقیق کی غرض سے آ نکلا۔ ایک مقام پر رہائش کی غرض سے خیمہ نصب کیا خود اپنی جستجو میں روانہ ہو گیا جبکہ اس کی صاحبزادی اس عارضی رہائش کو قرینے سے سجانے لگی کہ نفاست اس جنگل میں بھی برقرار رہیں۔ قالین میز کرسی اور دیگر اشیا کو قرینے سے سجانے لگی اور ان کے ساتھ ساتھ انتہائی جاذب نظر مگر مصنوعی سیبوں کو بھی ایک ٹوکرے میں سجا کر رکھ دیا۔

بندر یہ منظر درختوں پر چڑھے ملاحظہ کر رہیں تھے۔ ایسا سیب انہوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ منہ میں پانی آ گیا مگر لڑکی کی موجودگی میں سیبوں پر ہلا بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن ایک بندر نے چھلانگ لگا ہی دی۔ اب اس کے ہاتھ میں ایک مصنوعی سیب آ ہی گیا کہ اتنی دیر میں اس لڑکی نے بندر کو بھگا دیا سارا ٹولا ہی بھاگ اٹھا۔ جس بندر کے ہاتھ میں مصنوعی سیب آ لگا تھا اس کو سب بندر ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے اور وہ بندر پھولے نہیں سما رہا تھا۔

دیگر بندروں نے اس سے درخواست کی کہ ہم کو اس کو چھونے ہی دو مگر اس نے آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے صاف انکار کر دیا اور ایک محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس کو کھانے کا آغاز کر دیا اب بھلا اس کو کیا کھایا جاتا؟ چبانے کی کوشش کی تو منہ میں درد ہونے لگا سوچا کہ پھینک دوں مگر بندروں کی ستائشی نظروں نے ارادے سے باز رکھا ایک ہاتھ سے پکڑ کے بیٹھا رہا کہ کوئی دوسرا بندر نہ لے اڑے اسی وجہ سے نہ درختوں پر چڑھ سکا نہ پھل کھانے کا موقع ملا اور نہ ہی کسی دوسرے بندر نے پھل لا کر دیے مگر تمام بندر جب اس کو حسد بھری نظروں سے دیکھتے تو وہ بھوک کو بھول کر بس چوڑا ہونے لگتا۔

بھوک کی شدت نے اس کو ادھ موا کر دیا مگر وہ مصنوعی سیب حاصل کرنے کی قابلیت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ جان لبوں پر آ گئی مگر اس سیب سے جان نہیں چھڑائی یہاں تک کہ اس کے اپنی جان نکل گئی۔ دیگر بندر جب وہ مر گیا تو اس پر پتے ڈالنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اور بندر اس مصنوعی سیب کو لے اڑا ہے اور ان کو دور سے دکھانے لگا جبکہ باقی بندر اس کو ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے۔

مسئلہ ہمارا بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاتھ میں بھی نظریات کے مصنوعی سیب آ گئے ہیں جو ہماری پالیسیوں تک پر انداز ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان سے جان چھڑانے کی بجائے ان پر جان دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

وطن عزیز کے اردگرد بہت رفتار سے اسٹریٹیجک نوعیت کی تبدیلیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے امریکہ اور ایران نیوکلیئر ڈیل کی جانب بہت تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہے ہیں اس صورتحال کے اثرات عرب ممالک کی پالیسیوں میں بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اچھے پڑھے لکھے انسان سے بھی بات کر لی جائے تو اس خالصتاً سفارتی اور اقتصادی صورتحال کو جس سے گہرے اسٹرٹیجک اثرات مرتب ہوں گے پر گفتگو وہ ایسے اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کر دیتے ہیں جو کہ ناقابل اشاعت ہیں حالاں کہ ان کا اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے ایران میں اپنا سفیر بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ باخبر حلقے یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی ایران میں اپنے سفیر کو بھیجنے کے لئے سوچ بچار کر رہا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ بھی جلد ہی اس حوالے سے اعلان کر دے گا۔ اس صورتحال کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا تو اس حوالے سے طے شدہ ہے کہ ہم سمجھ داری سے اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیں تو اقتصادی اور سماجی حوالے سے پاکستان کو اس سے بہت سارے مفادات حاصل کرنے کا موقع میسر آ جائے گا۔

ایران کے حوالے سے یہ طے شدہ امر ہے کہ دنیا کی طرف اقتصادی طور پر بڑھنے کے لئے ایران کے پاس پاکستان کے علاوہ اور کوئی دوسرا مناسب راستہ موجود نہیں ہے۔ عراق میں یہ تصور ہے کہ ایران وہاں پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنا چاہتا ہے اس تصور کے سبب سے ہی عراق میں ایران کے لیے گنجائش کم ہے پاکستان کا معاملہ پھر مزید مختلف ہے کہ اگر ہم ذمہ دارانہ طور پر معاملات حل کریں تو کوئی بھی ہم پر اپنا اثر قائم کر ہی نہیں سکتا ہے۔

ایران کی اس وقت شدید خواہش ہے کہ وہ گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا دے کیوں کہ دنیا میں اس وقت انرجی استعمال کرنے والے بڑے ممالک جو اس کی گیس پائپ لائن کی خواہش بھی رہتی ہے چین اور بھارت ہیں۔ ایران تو اپنے حصہ کی گیس پائپ لائن تعمیر بھی کر چکا ہے مگر جیسا کہ ذکر کیا کہ ہم ایران کو، سعودی عرب کو، مخصوص پہلوؤں سے دیکھتے ہیں حالانکہ ان کو ایسے دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق رہا تو بلاشبہ اس سے ہمارے معاملات دشمنی کی حد تک ہیں لیکن اگر ہم اس کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اس سے بات کریں گے تو اس کو ہماری ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھنا مجبوری بن جائے گا اور اگر اس کی توانائی کی شہ رگ وطن عزیز سے گزر رہی ہوگی تو معاملات طے کرنا اس کے لئے بھی ضروری ہو جائے گا بشرطیکہ ہم موثر طور پر سفارتکاری کریں۔ لیکن اگر ہم نے نئے حالات کے تحت سفارتکاری نہ کی اور مصنوعی نظریات سے ہی چمٹے رہے تو بس بندر والی کہانی پیش نظر رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments