گورباچوف: امریکہ کا پٹھو؟


31 اگست کی اخبارات میں چھوٹی سی ایک خبر گورباچوف کے انتقال بارے تھی۔ کبھی کی سوویت یونین کی سیاسی و نظریاتی سرگرمیوں کا اہم رہنما اور اسے ریشین فیڈریشن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والا گورباچوف ایک متنازع شخصیت کے طور بہت نمایاں ہوا تھا۔ امریکہ کا کڑچھا چمچہ ہے، اس کا آلہ کار ہے۔ بورس پاسٹرنک کی طرح اسے بھی نوبل پیس ایوارڈ دلوانے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ سب قصے کہانیاں اس کے نام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

اس سے پہلے کہ آگے بڑھا جائے۔ سوویت ٹوٹنے کے زمانے کے چند سچے مزے کے واقعات سن لیں۔ زمانہ یہی 1991 کا تھا۔ روسی معیشت زمین بوس ہوئی پڑی تھی۔ پورے ملک میں ایک افراتفری کا سا ماحول تھا۔ ڈبل روٹی، انڈوں اور واڈکا کے لیے عام روسی قطاروں میں کھڑا اپنی دیہاڑی گل کرتا تھا۔ ماسکو کے ایک سٹور کے سامنے چند لوگ اپنے دلوں کی بھڑاس نکال رہے تھے۔

”اس گورباچوف نے تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ آلو اور اناج وافر مقدار میں موجود ہیں مگر دکانوں سے غائب ہیں۔ سگریٹ فیکٹریوں میں بکثرت ہیں مگر ہمیں دستیاب نہیں۔ گوشت گوداموں میں سڑ رہا ہے مگر لوگوں کو نہیں مل رہا ہے۔

اور ہاں ان بڑے لوگوں کو تو دیکھو۔ غریب کو روٹی کے لالے ہیں اور انہیں روبلوں کو ڈالرز میں بدلوانے اور لندن، امریکہ میں جائیدادیں خریدنے کے چکروں سے فرصت نہیں۔ ”

ایک خاتون بھی گوشت لینے کے لیے تین گھنٹوں سے ایک قطار میں کھڑی تھی۔ اس سارے وقت میں قطار نے انچ برابر آگے حرکت نہ کی۔

وہ چلائی۔
”بس بہت ہو گیا۔ میں گورباچوف کو قتل کرنے جا رہی ہوں۔ “
وہ قطار سے نکل کر بگولے کی طرح اڑتی نظروں سے غائب ہو گئی۔ صرف ایک گھنٹہ بعد واپس آ گئی۔
”کیا ہوا؟“ اس کی ساتھی عورتوں نے پوچھا۔ ”تم نے گورباچوف کو قتل کر دیا؟“
”اس کو قتل کرنے والوں کی قطار بہت لمبی تھی اور میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ “

وہیں کھڑا درمیانی عمر کا مرد غصیلی آواز میں بولا۔ کل ٹی وی پر گورباچوف کی لیبر کلاس کے ساتھ میٹنگ کی کارروائی دکھائی جا رہی تھی۔ ناکوں ناک آئے لوگ سوال پر سوال کیے جا رہے تھے۔ بیوروکریسی کے اللے تللوں پر اٹھنے والے اخراجات، ان کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر معمولی مراعات، قیمتی گاڑیاں، الگ اسپتال، ان کے بچوں کے مہنگے سکول، عیاشیوں کے اڈے۔ بخیے ادھیڑ دیے تھے انہوں نے۔ اور یہ ناہنجار لیڈر پریسٹرائیکا Perestroika کے قصیدے پر قصیدے پڑھے چلا جا رہا تھا۔

ایک نے غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا تھا۔ ”تمہاری اس پریسٹرائیکا کو ہم نے اب کٹی سٹرائیکا کہنا شروع کر دیا ہے۔ “

وہی خاتون جو تھوڑی دیر قبل اسے قتل کرنے نکلی تھی اب پھر بول رہی تھی۔ اس کا غصہ اب رئیسہ گورباچوف پر نکل رہا تھا۔ دیکھو تو ذرا کیڈیلک گاڑی میں سفر کرتی ہے۔ مہنگے ترین غیر ملکی کپڑے استعمال کرتی ہے۔ ملک کی نمائندہ خاتون ہے۔ ماسکو یونیورسٹی میں لینن ازم اور مارکسزم پر لکچر دیتی ہے اور حال اس کا یہ ہے۔ کتنا تضاد ہے اس کے ہاں بھی۔

اب ذرا ذاتی تجربات کا احوال سنا دوں۔ 2006 میں پیٹرز برگ جانے کے لیے جب میں ماسکو کے کم سو مولسکایا ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں تھی۔ میری ملاقات مان سنگھ سے ہوئی تھی۔ ہریانے کی جم پل جو پچیس سال سے روس میں تھا۔ تعلیم، روسی بیوی، بزنس وہ روسی معاشرے میں پوری طرح رچا بسا تھا۔

”مان سنگھ سوویت یونین کو روس بنانے میں نمایاں کردار کس کا تھا۔“ میں نے پوچھا۔ کھلے ڈلے لہجے میں مان سنگھ لہرا کر بولا تھا۔

”لو کوئی ایک کردار اور عوامل تھوڑی تھے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ بس آخری کیل اس تابوت میں گورباچوف نے ٹھونکی تھی۔ ہماری پنجابی زبان میں ایک کہاوت ہے۔ کہ رنڈی تو اپنی بیوگی کاٹ ہی لے پر گاؤں کے اچکے اسے کاٹنے نہیں دیتے۔ یہاں بھی یہی حال تھا۔ 1917 کے انقلاب کے ساتھ ہی روسی معیشت کی تباہی و بربادی کے لئے دنیا کے چاچے مامے امریکہ اور برطانیہ نے اینٹی کمیونسٹ عناصر، وائٹ گارڈز (زاروں کی حامی فوج)، جاگیرداروں اور نوابوں کو ہتھیاروں اور پیسوں کی فراہمی کی صورت میں در پردہ سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔

اکتوبر انقلاب غریب طبقے کی امید تھی۔ عام لوگوں کے جوش و جذبوں نے اپنی ساری توانائیاں اس میں جھونک دی تھیں۔

اب سچی بات ہے پوری دنیا میں واہ واہ اور بلے بلے بھی ہو گئی تھی۔ سکون سے بیٹھ جاتے پر نہیں جی۔ فوج کو عظیم تر بنانے کے لئے قومی دولت کا گیارہ بارہ فی صد اس پر خرچ ہونا شروع ہو گیا۔ فیکٹریوں نے صرف عام اسلحہ ہی نہیں نیو کلیئر ہتھیاروں کے ڈھیر لگا کر امریکہ اور نیٹو NATO کو پیغام دیا کہ ہم کوئی تم سے کم ہیں۔ اوپر سے ماشاءاللہ خلائی تسخیر میں بھی سبقت کا جنون۔ بلا سے اسلحہ کوالٹی کے اعتبار اور فورسز تربیتی معیار سے امریکہ کے پلے کی نہ ہوں۔

بیچارے عام روسیوں کا تو وہ حال کہ کہا جائے آسمان سے گرے اور کھجور میں جا اٹکے۔ زار کم بختوں کے چنگل سے نکلے تو ان کمیونسٹ باگڑ بلوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

مارکسزم کا پرچاؤ اور کمیونسٹ بلاکوں کو زیراثر کرنے کے لئے انہیں اسلحے کی فراہمی کبھی مفت اور کبھی بہت کم قیمت پر ہونے لگی۔ مشرقی یورپ کو تیل 20 %کم ریٹ پر۔ کیوبا کو سوویت ٹوٹنے تک ایک ملین ڈالر روزانہ کی چھوٹ تھی۔ اب بوجھ قومی معیشت پر تو پڑنا تھا۔ وہ پڑا۔

پرائیویٹ سیکٹر کا ریاستی سیکٹر کے ساتھ بھلا کیا مقابلہ۔ ذاتی دلچسپی نہیں تو کون جان مارتا ہے؟ میں چار کی بجائے کارخانے سے دو بجے ہی کیوں نہ بھاگ جاؤں۔ تنخواہ تو مجھے ملنی ہی ملنی ہے۔ یہی ہوتا تھا اشیا کی کوالٹی کا معیار نا قص، زراعتی فارموں پر پیدا ہونے والی اشیا اپنے اہداف سے کم، اوپر سے غریب کسانوں پر ظلم و ستم کی انتہا۔ اجتماعی پیداوار پر زور۔ ایسے میں کولاک (امیر ترین) کسانوں کا رویہ ۔۔۔ انہوں نے فصلیں اجاڑ دیں۔ کھلیانوں اور گوداموں کو آگ لگا دیں۔ جانور ذبح کر دیے۔

لوگوں کے پاس گھروں کی قلت اور معیار زندگی مشرقی یورپ سے بھی پست۔ خوراک کی کمی، بلیک مارکیٹوں کا رجحان، اوپر سے دنیا کے سکڑنے کا عمل، نئی نسل کے امریکہ کے ساتھ تقابلی جائزے، آزادی کی خواہش۔ بیوروکریسی فوج کے اعلیٰ افسروں اور بڑے کمیونسٹ لیڈروں کے اللے تللے۔ سچ تو ہے ایسے میں امریکہ کے رونالڈ ریگن اور مغربی ملکوں نے گورباچوف کو اپنا محبوب بنا لیا تھا۔ گورباچوف اور اس کے حواری گلاسناسٹ (آزادی اظہار و خیال) پرسترائیکا (سیاسی اور اقتصادی بہتری) اور ڈیمو کریٹائزیشن جیسی اصلاحات کے ساتھ سوویت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی سازشوں کا حصہ بننے کے لیے میدان میں اتر پڑے تھے۔ کیا گورباچوف واقعی ریفارمر تھا؟ میں ناقد نہیں۔ تاہم ان سبھوں پر طرہ روسی فوجوں کی افغانستان میں شرمناک شکست اور واپسی۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک معاشی اور اقتصادی میدانوں میں کن کن ذلت آمیز ہتھکنڈوں سے سوویت یونین کا گلا گھونٹنے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ خود گورباچوف کیا چاہتا تھا؟ ملک تیز رفتاری سے کس نہج پر جا رہا تھا۔ اس کی کسی کو پرواہ نہ تھی۔ زار شاہی دور کی طرف واپسی کرتے ہوئے ستر اسی سالہ وقت کو منہا کرنے کی حماقتیں زور و شور سے جاری تھیں۔

زار شاہی کا زمانہ بہترین، آرتھوڈوکس چرچ ہمارا ایمان اور سٹیٹ ایگل امتیازی نشان۔ ہتھوڑا اور درانتی سرخ جھنڈے سے یوں کاٹ کر پھینکی گئی تھی کہ جیسے وہ کسی تحریک کا سمبل نہیں، کوئی اچھوت شے تھی۔

رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments