تو تو گئیو ٹھاکر


برسوں پرانی بات ہے کہ میٹرک کے اردو کے سلیبس میں ایک مضمون ہوا کرتا تھا، ”ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے“ مصنف کا نام تو ذہن سے اتر گیا ہے مگر نفس مضمون آج بھی یاد ہے۔ کچھ مضامین سدا بہار ہوتے ہیں۔ ان کا وقت مقام اور کردار بدل جاتے ہیں۔ زمان و مکان کی قید سے ماورا وہ ہر زمانے پہ منطبق رہتے ہیں۔ جب تذکرہ مہربانوں کا ہو تو کوئی دور ان سے مبرا نہیں ہوتا۔ بقول شخصے کہ دل جلانے کو چراغ تو ہر دور میں میسر ہوتا ہے

یہ نہ تو الف لیلٰی کا قصہ نہ ہی داستان امیر حمزہ ہے۔ مدعا یہ کہ کوئی بہت قدیمی بات نہیں۔ گزشتہ برس کا قصہ ہے جب ایک مولانا صاحب مدنی منوں کو علم جغرافیہ کے بارے نابغہ روزگار معلومات سے نواز رہے تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے تو ایک منے نے دبا دبا احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسکول والے سر تو کہتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کتاب میں بھی یہی لکھا ہے۔ اس پر مولانا انتہائی پدرانہ شفقت سے گویا ہوئے تم تو اسلامی منے ہو مگر تمہارے اسکول والے سر کافروں کے علم سے متاثر ہیں۔ جب ہم نے یہ وڈیو دیکھی تھی تو کئی دن اس سوچ و بچار میں مستغرق رہے کہ جب منے میاں نے اسکول کے سر سے اس مدعے پہ مناظرہ کیا ہو گا تو جغرافیہ پڑھانے والے استاد محترم پہ کیا گزری ہو گی اور خود منے میاں پہ کیا قیامت ٹوٹی ہو گی۔ یہی سوچ کر دنوں جھرجھری آتی رہی۔

ایک مولانا پر ہی کیا موقوف یہاں تو ایسے ایسے نادر نمونے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اسی سے ہمیں یاد آیا کہ ایک وزیر موصوف بھی ہوا کرتے تھے جو ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایسے بزعم خود سائنسدان کو لے کر آ گئے تھے جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے پانی سے چلنے والے والی موٹر گاڑی ایجاد کی ہے۔ وزیر صاحب بھی ہماری طرح تکنیکی معاملات میں صفا کورے کہ جنہیں گاڑی چلانی تو آتی ہے مگر اس کی کچھ خبر نہیں کہ گاڑی کی مکینکس کس طرح کام کرتی ہیں۔ گمان یہ ہے کہ وہ وزیر صاحب کی گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ بلا معاوضہ کرتا ہو گا جبھی اس پہ مہربان ہو گئے کیونکہ ہمارے اکثر وزرا کو جیبیں بھرنے کا تو شوق ہے مگر دمڑی دیتے جان جاتی ہے۔

ایک اور بھی قوم کے خادم تھے بلکہ خادم اعلٰی جنہوں نے بغیر جیالوجیکل سروے کے بیان داغ دیا تھا کہ کسی علاقے میں سونے کی کانیں ہیں ایک خاتون ہونے کے ناتے ہمیں بھی سونے سے تھوڑی بہت دلچسپی تو ہے بہت خوش ہوئے کہ چلو ہمارا کچھ بھلا ہو نہ ہو مگر جنہیں شادی بیاہ پہ سونے کے زیورات بیٹیوں کو دینے کے ساتھ ساتھ سسرالیوں کو بھی چڑھانے پڑتے ہیں وہی سکھی ہو جائیں گے۔ واہ ری قسمت کہ یہ خوش فہمی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ پائی۔

پرانے زمانے کے شاعر حضرات کو دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ عاشقان نامراد کو گلی گلی یہ تانیں لگاتے ان گناہگار آنکھوں نے کئی بار دیکھا ہے کہ

یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

ہم ہمیشہ اس شعر پہ متعجب ہی رہے کہ آخر یاد ماضی میں ایسی کیا قیامت چھپی ہے کہ انسان اپنے حافظے کو کوسنے پہ آ جائے مگر وقت و حالات نے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ایسا کہنے میں وہ حق بجانب تھے۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ لوگ باگ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتیں۔ وقتی طور پہ اس سعی ناکام میں کامیاب بھی ہو جائیں تو یہ کمبخت سوشل میڈیا کچھ بھولنے ہی نہیں دیتا بات بات پہ بطور ثبوت کلپ منہ پہ مار دیتا ہے اب جھٹلائیں تو کیسے؟ ہر اک ہاتھ میں وڈیو کیمرا ہے۔ اس موذی کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اس کے وار سے کوئی نہیں بچ پاتا۔

اب ہمارے خان صاحب ہی کو دیکھ لیجیے یہ تو مہا پرش نکلے ایسی ایسی پھلجھڑیاں اس تیقن سے آئے روز چھوڑتے ہیں کہ جلسے جلوس کی تو ہمیں خبر نہیں مگر نجی محفلیں، وٹس ایپ، ٹویٹر اور فیس بک دنوں نہیں ہفتوں زعفران زار رہتے ہیں۔ پہلے یہ میلہ کبھی کبھی سجتا تھا مگر سورج جب سے نصف النہار پہ ڈوبا ہے بوکھلاہٹ روز افزوں ہے۔ وہ جاپان و جرمنی کی سرحدوں کا قصہ ابھی ذہن فراموش نہ کر پایا تھا کہ نجانے کس پنک میں فرمایا کہ سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں۔

ہم لگے سر کھجانے کہ سال میں بارہ مہینے تو ہوتے ہیں مگر یہ بارہ موسم؟ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں مگر یہ بارہ موسم نہ کبھی دیکھے نہ سنے! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ہم کون ہوتے ہیں کچھ کہنے والے؟ میں اور آپ جو جی چاہے سمجھیں مگر کیا بلا کی خود اعتمادی ہے کہ کیا مجال کہ اپنے بیان سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹیں پھر سے وہی دھرا دیا۔ کم از کم اب مخالفین ان پہ یو ٹرن کا الزام نہیں لگا سکتے۔

خان صاحب اور ان کے حواریوں نے سابقہ وزیر اعظم کی بھد اس بات پہ خوب اڑائی تھی کہ انگریزی نہیں آتی پرچیوں پہ لکھا پڑھتا ہے۔ مگر اب ان من موجیوں کو کون سمجھائے کہ اونگی بونگی مارنے کے بجائے بات جب اعداد و شمار کی ہو تو پرچی بہتر رہتی ہے۔ اگلا فرمان تھا کہ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو آبادی چالیس کروڑ تھی اب سال موجود میں بائیس کروڑ ہے۔ ہمارا دل دھک سے رہ گیا۔ برسوں سے خاندانی منصوبہ بندی پہ چنداں توجہ نہ دینے کے باوجود یہ کون سی گیدڑ سنگھی تھی کہ آبادی میں اتنی کمی واقع ہو گئی؟ ابھی سوچ کی پرواز بلند بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کسی نے خان صاحب کو ٹہوکا دیا مگر وہ بھی نہلے پہ دہلا تھا بولا چالیس لاکھ تھی۔ یہ دوسرا ہارٹ اٹیک تھا اور ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔

خیر ہم تو ان کے خیر خواہوں میں سے ہیں ہمارے حساب سے اب ان پہ ستر خون معاف ہیں کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سترے بہترے ہو چکے ہیں اور جتنا بڑا صدمہ انہوں نے سہا ہے اس سے تو اچھے اچھوں کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ ان کے پاؤں لاحول ولا قوت ذہن پر تو بہت ہی بھاری تناؤ ہے۔ ظالموں نے دودھ کی مکھی کی طرح عرش سے فرش پہ دے مارا۔ سب کو بہکتے دیکھ کر ہمارا قلم بھی بہکتے بہکتے بال بال بچا ہے۔ کچھ کام تو مشیروں کو بھی کرنا چاہیے نا۔

کوئی تقریر ہی دیکھ لیا کرے۔ لیڈران کرام کو کہاں یاد رہتا ہے کہ پیغمبر کتنے تھے۔ ارے بھئی یہ چھٹانک بھر کی زبان ہی تو ہے پھسل گئی اور یہ چھکا مخالفین نے کیچ کر لیا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار میں سولہ ہزار کا ہی فرق ہے مگر یاران فتنہ پروراں نے کسی بات کو پینا سیکھا ہی نہیں تسلسل سے ایک ہی راگ راگ رہے ہیں کہ ”تو تو گیو ٹھاکر“ اور مداحوں کو انہیں سپورٹ کرنے کو شرح پہ حاشیے چڑھانے پڑ رہے ہیں۔

بہر حال یہ سیاست کی پگڈنڈیاں بہت ہی پھسلواں ہیں لاکھ احتیاط کے باوجود ان پہ ہر کوئی پھسلتا ہے۔ یہ تو وہ جانیں مگر ہم جیسوں کو یہ احساس کمتری ہو چلا ہے کہ ہماری معلومات برائے تاریخ و جغرافیہ اور دینی امور بہت ہی نا قص ہیں۔ یہ نیلے پیلے اسکولوں میں پڑھنے والے آکسفورڈ والوں کا مقابلہ کہاں کر سکتے ہیں؟ وہاں کا سلیبس بڑی تحقیق و تفکر کے بعد مرتب کیا جاتا ہے اسی لیے تو خان صاحب کے چاہنے والے ہر فرمان پہ آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments