اجارہ داریوں والے سماج میں ذہانت کے بجائے سازشوں کو عہدے ملتے ہیں


سرکار کے بہت زیادہ چھپانے کے باوجود لوگوں کو کہیں نہ کہیں سے پتہ چل ہی گیا ہے کہ سرکاری ادارے عوامی خدمات سر انجام دینے کے لیے ہوتے ہیں۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ ادارے خدمات کی ادائیگی میں عوامی خواہشات پر پورے نہیں آ رہے تو لوگوں نے باتیں شروع کر دیں۔ ذہین لوگوں نے اداروں کے لطیفے بنانے شروع کر دیے، کوئی اثر نہ ہوا تو بات کالموں، بلاگوں تک پہنچ گئی۔

جواب میں اداروں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اصلاح کے بجائے اپنے سرکاری اثر و رسوخ کو ورتتے ہوئے اپنے خلاف بولنے والوں کی گردن زدنی کے لیے تقدس، مقدس اور عالیہ، عظمی کے لفظوں کے غلاف تیار کیے اور قانون سازی کروانی شروع کر دی۔

حالانکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تولوگ اداروں کے خلاف نہیں بولتے وہ تو اپنے حق کے لیے بول رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر لوگ یہ کہیں کہ ہمارا ایجوکیشن یا صحت کا پیسہ فلاں ادارہ کھا رہا ہے تو یہ بات اس ادارے کے خلاف نہیں کہنے والے تو اپنے حصے کے بجٹ کی بات کر رہا ہے۔

عوامی آزادی چھیننے یا اپنے حق کے لیے بولنے والوں کی زبان بندی کے لیے کوششیں کرنے والے ہم پہلے لوگ نہیں، ہم سے پہلے بھی کئی ممالک یہ کوششیں کر چکے ہیں، آخر کار وہ ممالک ادارا جاتی اجارا داریوں سے آزاد ہوئے، یہ وہی ممالک ہیں جن میں انٹری کے لیے لوگ لاکھوں خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ سمندر میں ڈوب مرنے کو بھی تیار ہیں۔ اجارا داریوں والے سماج میں ذہانت کے بجائے سازشوں کو عہدے ملتے ہیں۔

جو بندا سخت گرمی کے موسم میں صبح سے شام تک عدالت کے دروازے پر بیٹھا رہے، ایسا اس کے ساتھ مہینے میں چار بار ہو اور پندرہ سال سے ہو رہا ہو تو کیا اس کو اتنا اختیار بھی نہیں کہ ایسے گئے گزرے عدالتی نظام پر کوئی لطیفہ کہہ کر قہقہہ لگائے اور اپنی تھکن، پریشانی اور مایوسی کم کر سکے۔ ایسے پر پنجابی میں کہتے ہیں ”مارنا بھی اور رونے بھی نہ دینا“ ۔

لوگوں کی اداروں سے مایوسی ہی تو ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کے عدالت سے معافی کے انکار کو لوگوں نے برا نہیں سمجھا۔ ان میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو خان صاحب کے فین ہیں۔ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جن کو زندگی میں کبھی نہ کبھی عدالت سے واسطہ پڑا ہے۔

ہمارے ملک میں ہر ادارے کا یہی حال ہے، اس لیے لوگ سارا دن اپنی عرضیاں ہاتھوں میں لیے ایک سے دوسرے دروازے کا طواف کرتے پائے جاتے ہیں۔ جس سے بھی پوچھیں اس کا جواب ہوتا ہے کہ ”ایہہ اک نکا جہیا کم اے، مہینا ہو گیا جاندیاں“ ۔

مقدسوں کی دیکھا دیکھی دوسرے اعلی بننے کے چکر میں پڑ گئے، اس کی ایک مثال پنجاب میں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری جماعتوں کا امتحان لینے والے بورڈوں ہیں، سکولوں کی ایفیلی ایشن، رجسٹریشن اور داخلوں کی مد میں عوام سے بے شمار پیسہ لیتے ہیں۔ کارکردگی یہ ہے کہ ان کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ رزلٹ کب برآمد ہونا ہے۔ ماسوائے میاں شہباز شریف کے وزارت اعلی کے دور کے، اس نے بورڈوں کو پابند کیا تھا کہ جب امتحان کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے تو ساتھ رزلٹ کی تاریخ کا اعلان بھی کیا کریں، اس کے دور میں کرتے بھی رہے ہیں۔

بورڈ قوانین میں پیپر ری چیکنگ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بھی پیسے بٹورنے کا ایک زریعہ ہے۔ اصل میں وہ ری چیکنگ نہیں ری کونٹنگ ہے۔ صرف نمبر جمع کرنے میں غلطی کو درست کیا جا سکتا ہے۔ اگر پیپر میں سوال درست ہو اور پیپر چیکر نے اس کو اپنی کم علمی، عقلی یا غفلت سے غلط کر دیا ہو تو بورڈ قوانین کے مطابق کوئی اس کو درست نہیں کر سکتا۔ ری چیکنگ کے لیے جانے والے بچے وہاں چیخ رہے ہوتے ہیں کہ میرا یہ سوال درست ہے۔ جواب ہوتا ہے کہ بورڈ قوانین ری چیکنگ کی اجازت نہیں دیتے۔ ثابت ہوا وہ بورڈ جو بچوں کے پیسوں سے چلتے ہیں۔ بورڈ قوانین جو طالب علموں کے نام پر بنتے ہیں وہ پروٹیکشن صرف بورڈ کی جائز ناجائز کارروائیوں کو ہی دیتے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا پر کسی سیکنڈری امتحان کے دو رزلٹ کارڈ آوارہ گردی کر رہے ہیں۔ رزلٹ کارڈز میں پریکٹیکل کے نمبرز کو دائرہ لگایا گیا ہے۔ دونوں طالب علم سائنس کے علم کے طالب ہیں۔ امتحان میں ایک طالب علم نے دس سو بیالیس نمبر حاصل کیے جبکہ اس کے فزکس کیمسٹری اور بیالوجی تھیوری میں بالترتیب چھپن، چوون اور اٹھاون نمبر ہیں، اس کو پریکٹیکل میں نمبر ملے اٹھارہ، اٹھائیس اور اکیس۔ اس طالب کے تمام اے پلس ہیں سوائے فزکس کے، ایک نمبر کی وجہ سے اس کا فزکس میں اے پلس رہ گیا ہے۔ پریکٹیکل والے نے اس کے بارہ نمبر کاٹے ہیں۔

جب کہ دوسرا طالب تھیوری فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی میں فیل ہے اور اس کے پریکٹیکل میں بالترتیب تئیس، پچیس اور تئیس نمبر لگے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments