اسلامی حلیہ اور نیک و بد کا تصور!


کیا اسلامی وضع قطع کو کسی انسان کے باقی کردار کی جانچ پڑتال کے لیے معیار قرار دینا درست ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلامی وضع قطع سے مراد کیا ہے۔ کئی احادیث میں آیا ہے کہ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں تراشو۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ داڑھی اسلام کا شعار اور مسلمانوں کی پہچان ہے اور مسلمانوں پر اپنے اس شعار کی حفاظت کرنا لازم ہے۔ اس کے علاوہ جسم کی صفائی، زیر ناف اور بغل کے بال کی صفائی، ناخن کاٹنا وغیرہ بھی اسلام میں مطلوب، بلکہ ایک حدیث کے مطابق یہ چیزیں انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ لباس کے حوالے سے بھی اسلام کا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے ستر پوشی اور زیب و زینت کا مقصد پورا ہو جائے، جو تکبر اور غرور کا باعث بھی نہ ہو اور کسی کافر قوم کا شعار بھی نہ ہو۔

پینٹ شرٹ بعض اہل علم کے ہاں شاید کسی وقت انگریزوں کا شعار تھا، لیکن اب نہیں رہا کہ اسے آج کل بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب سب ہی پہنتے ہیں۔ مسنون لباس یعنی جو لباس نبی کریم ﷺ نے زیب تن فرمایا کون سا تھا؟ اس کی ہوبہو شکل کی وضاحت کرنا شاید تکلف سے خالی نہیں ہو گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ظاہری اسلامی شکل و صورت یا حلیہ میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ داڑھی، مناسب طرز کے مونچھ اور ٹخنوں سے اوپر لباس ہے۔ لیکن اس ظاہری شکل و صورت، وضع قطع اور حلیہ کی دیگر اسلامی احکامات کے مقابلے میں حیثیت کیا ہے؟ یہ جاننے سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کو کتنی اہمیت دی گئی ہے اور یہ کہ ہدایت یافتہ اور متقی لوگوں کی کیا صفات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم کی سورہ فرقان میں رحمان کے بندوں کی صفات کچھ اس طرح بیان کی گئی ہیں :

”رحمن کے بندے زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جاہل لوگوں کی جاہلانہ باتوں کا جواب برے الفاظ میں دینے کے بجائے شریفانہ انداز میں دیتے ہیں۔ اپنی راتیں کبھی سجدے اور کبھی قیام کی حالت میں یعنی عبادت کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ خرچ کرتے وقت فضول خرچی اور بخل دونوں سے بچ کر اعتدال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ نہ ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں۔ نہ غیر شرعی اور ناجائز کاموں میں شامل ہوتے ہیں اور نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ لغو اور بے ہودہ کاموں میں نہ خود شریک ہوتے ہیں اور نہ ان لغو کاموں میں مبتلا لوگوں کی تحقیر کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس اگر ممکن ہو تو حکمت کے ساتھ نکیر کرتے ہیں ورنہ برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ جب انہیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے، اندھے بن کر انہیں اگنور نہیں کرتے بلکہ ان کے مضامین کو سمجھ کر بھرپور طریقے سے ان سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہ وہ بیوی بچوں کے حق میں اپنے رب سے دعا کرتے ہیں۔

سورہ مومنون کے شروع میں جنت کے وارث بننے والے مؤمنوں کی صفات قرآن یوں بیان کرتا ہے۔ وہ نماز خشوع سے پڑھتے ہیں۔ بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں۔ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ امانتوں کی حفاظت اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور انہیں اپنے وقت پر پورے آداب اور شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نجاشی بادشاہ کے دربار میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کا تعارف ان الفاظ میں فرمایا تھا کہ:

بادشاہ سلامت! ہماری قوم نہایت جاہل تھی، ہم بت پرست تھے، مردار کھاتے تھے، فحاشی میں مبتلا تھے، قطع رحمی کا ارتکاب کرتے تھے، پڑوسی کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کے حق کو کھا جاتا تھا۔ پھر اللہ تعالی نے ہماری قوم میں ایک ایسے شخص کو اپنا رسول بنا کر مبعوث فرمایا کہ جس کی شرافت، راستی، دیانتداری اور پاکبازی سے ہم اچھی طرح واقف تھے، سو آپ ﷺ نے ہمیں شرک و بت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی، ہم کو راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اور رشتہ داروں سے محبت کا سبق سکھایا۔ پڑوسی سے اچھا برتاؤ کرنے کا درس دیا، جھوٹ بولنے سے منع فرمایا، ناحق قتل و خونریزی، بدکاری، دھوکہ اور فریب سے روکا، یتیموں کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر بدنامی کی تہمت لگانے سے منع فرمایا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ وحدہ لا شریک اور اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں اور اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کریں۔

مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تحریر کے ذریعہ داڑھی یا اسلامی حلیہ کی اہمیت گھٹانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصد ہے کہ کون نیک ہے اور کون بد، کون متقی ہے اور کون بدکار، کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ، اس کا فیصلہ صرف ظاہری شکل و صورت کو دیکھ نہیں کیا جاسکتا۔

یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں ہمارا امتحان لیا جا رہا ہے کہ ہم میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے اور کون برا۔ کون اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرتا ہے اور کون اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ اب فرض کر لیں اللہ تعالی کے احکامات اوامر اور نواہی کی صورت میں ہمارے لیے امتحانی پیپرز یا سوالات ہیں جنہیں ہمیں اپنے کردار سے حل کرنا ہے تو آپ ان میں سے انسان کی ظاہری وضع قطع کو کس درجے میں رکھیں گے؟ یہ پیپر یا سوال اختیاری ہے یا لازمی؟ میرے نزدیک یہ لازمی ہے لیکن اگر کسی کا فقط یہ ہی پیپر فیل ہو جائے تو کیا اس کے باقی پیپرز کو دیکھے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا انصاف ہو گا؟

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ظاہری وضع قطع والے پیپر میں کسی کے مارکس ہم سے کم ہوں لیکن دوسرے پیپرز میں وہ ہم سے بہت آگے ہو؟ پھر کیوں ہم اسے بہرحال خود سے کمتر سمجھتے ہیں؟

اللہ تعالی تو قرآن کریم میں یہ فرماتے ہیں کہ ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو نصب کریں گے اور اگر کوئی اچھا یا برا عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو گا، تو بھی ہم اسے سامنے لائیں گے۔ پھر کون ہوتے ہیں ہم فقط ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر کسی کو گمراہ قرار دے کر اس کی ساری نیکیوں کو سمندر برد کرنے والے؟ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو اچھے برے کا پیمانہ مقرر کرنے سے بعض لوگوں نے ظاہری حلیہ ہی کو کل دینداری سمجھ لیا ہے اور اس بنا پر وہ دیگر ضروری احکامات کو اہمیت ہی نہیں دیتے؟ اندازہ نہیں تو ذرا اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں، پتہ چل جائے گا کہ

اوپر ذکر کیے گئے چند قرآنی احکامات پر عمل کرنے والے پینٹ شرٹ میں ملبوس، داڑھی مونڈھے، صفاچٹ کتنے ہیں اور لباس خضر میں کو بکو راہزن کتنے پھر رہے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments