تعلیم اور پیشہ: بچوں کو سرمایہ کاری اور ہنر سکھائیں


ضرار کو میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تو اس کے والد نے پورے پانچ سال کی فیس اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی اور کہا ”بیٹا! یہ تمہاری ساری پونجی ہے۔ اس سے کسی بھی چیز میں سرمایہ کاری کرو اور اپنا جیب خرچ اور کالج کی فیس اسی سے نکالنی ہے“ ۔ ضرار نے فوراً ادھر ادھر سے معلومات لینی شروع کیں۔ ایک بینک کے میوچل فنڈز اسے قابل اعتبار لگے اور کچھ پیسے اس میں جمع کر دیے۔ پہلے سال جب اچھا منافع ملا تو اگلے سال باقی رقم بھی انویسٹ کردی۔

میڈیکل کالج کے پانچ سال وہ کالج کی فیس بھی بھرتا رہا اور جیب خرچ بھی چلاتا رہا۔ دو سال بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک گیا تو پھر بھی اس کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم تھی۔ اس سال وہ چھٹی پر آیا تو اسلام آباد میں قسطوں پر ایک شروع ہونے والی کالونی میں پلاٹ کے لئے ابتدائی رقم اسی بچت میں سے جمع کرا دی۔ اب چونکہ وہ باہر تنخواہ لے رہا ہے اس لئے ماہانہ چند ہزار روپے دینا اس کے لئے مشکل نہیں۔ اگلے چند سالوں میں اس پلاٹ کی قیمت اتنی ہو جائے گی کہ ضرار کے واپس آنے پر کم از کم اس کا جیب خرچ نکل آئے گا۔

اس وقت غالباً دسویں کے امتحانات ہوچکے ہیں۔ ہر بچہ ٹینشن میں ہے۔ ماں باپ بھی بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ سب اسی چکر میں ہیں کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ مل جائے۔ اور وہاں سے ڈاکٹر، انجینئر یا کسی اور ممتاز پیشے کا عالم فاضل بننے کی راہ ہموار ہو سکے۔ بالواسطہ طور پر زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقہ اپنے بچوں کو ماہوار تنخواہ کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو تنخواہ سے کوئی امیر بن سکا ہے اور نہ ہی ملازمت میں اپنی صلاحیتیں نکھارنے، ان کو استعمال میں لانے اور زیادہ کمائی کے مواقع ملتے ہیں۔ ایک لگی بندھی تنخواہ کے عوض آپ اپنے بچے کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتے ہیں۔

بزنس نہ صرف ایک پیغمبری پیشہ ہے بلکہ اس میں ترقی کے بے شمار مواقع کے علاوہ نوع انسانیت کی فلاح کے ان گنت رستے دستیاب ہوتے ہیں۔ بس ہر پیشے کی طرح اس میں بھی تجربے اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کے تمام امیروں میں مشترکہ اقدار محنت، دیانتداری اور تجربہ ہی ہیں۔ اور کمال کی بات یہ کہ اس میں نہ تو زیادہ پڑھائی کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ زیادہ سرمائے کی۔ یہ ایک مشغلے کی طرح پروان چڑھتی ہے۔ جتنی کم عمر سے اس کا آغاز کیا جائے، اتنا ہی زیادہ صلہ ملتا ہے۔

نہ سفارش کی ضرورت اور نہ جان پہچان لازمی ہے۔ وارن بفٹ چھ سال کی عمر میں کوکا کولا کی بوتلوں کے ڈھکن جمع کر کے کوکا کولا کی فیکٹری کو واپس بیچا کرتا تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں اس نے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کی۔ اس وقت وہ دنیا کے ارب پتیوں میں ایک ایسا مقام رکھتا ہے کہ اس کے الفاظ بزنس کے نصاب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اسے دنیا کا کامیاب ترین بزنس مین مانا جاتا ہے۔ اس کے زرین اصولوں کو تجارت کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔

تعلیم بلاشبہ ایک ضرورت ہے۔ علم سے دوری نے ہمیں دنیا میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کئی نسلوں کی جہالت نے ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے اور اسی لئے ہمیں اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے تعلیمی ادارے میں داخل کرنے کا جنون ہے۔ اس سے تعلیم کا شعبہ نہ صرف پیسہ کمانے کا ایک بڑا دھندا بن گیا ہے بلکہ ایک کے بعد دوسری اور تیسری ڈگری لینے کے لئے شکار کے پھندے کا کام بھی کرتا ہے۔

تجارت سے منسلک خاندان اپنے بچوں کو کم عمر ہی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ خریدو فروخت کا تعارف کرواتے ہیں۔ اس لئے وہ طلبہ جب کالج یا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو بیک وقت تجارت کی عملی دنیا کے لئے بھی ایک نئے ایکسپرٹ کی جگہ لینے کے قابل اور دنیا اس کی محنت کا جواب دینے کے لئے تیار رہتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آٹھویں اور دسویں کی کلاسوں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا شوقیہ سہی، تجارت میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

خواہ وہ صبح کے وقت اخبار کی تقسیم ہو (مغربی ممالک میں، سکول کے ان بچوں کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ایک عام پریکٹس ہے ) یا شام کو کسی ہوٹل یا دوسرے سروس میں کام کرنا ہو۔ بس ہر قسم کی محنت کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور نہ کسی ہنر کو نیچ سمجھا جائے۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب کسی محنتی طالب علم کو اپنی تعلیم کے خرچے اٹھانے کے لئے ایکسٹرا کام کرتے دیکھتا ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے دوران میکڈانلڈ اور کے ایف سی جیسی فرینچائزز میں کام کروایا ہے۔

تجارت میں اعتماد، سیلز مین شپ اور شخصی کشش ضروری ہوتے ہیں۔ اور جو بچے ان صلاحیتوں میں کمی کے شکار ہوتے ہیں وہ روزمرہ زندگی میں کام آنے والے کسی ہنر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سکلڈ لیبر کی ہمارے صوبے میں شدید کمی ہے۔ اگر کوئی بچہ یونیورسٹی کی تعلیم کی جگہ یا اس کے ساتھ ساتھ پلمبر، الیکٹریشن یا کوئی اور ہنر مند بنے تو وہ نہ صرف زیادہ کمائی کر سکتا ہے بلکہ فارغ التحصیل ہونے پر بے روزگاروں کی آبادی میں اضافے کا باعث بھی نہیں بنتا۔

میرے ایک پروفیسر کے تین بیٹے تھے۔ دو ڈاکٹر بنے اور ایک الیکٹریشن۔ آخرالذکر نے اپنے والد کی میڈیکل کی مشینوں کی مرمت سے آغاز کیا۔ وہ آج کل ایک فیکٹری کا مالک ہے جبکہ ڈاکٹر بھائی ہسپتال کی ملازمت تک محدود ہیں۔ ان کے والد (خدا ان کو بخشے ) کہا کرتے تھے کہ بڑے بچوں کی میڈیکل تعلیم کا سارا خرچہ وہ آخر تک برداشت کرتے رہے لیکن سب سے چھوٹے بیٹے نے ہی ان کو گھر بنا کر دیا۔

نت نئے شعبے دنیا میں کمائی کے ذریعے بن رہے ہیں۔ ہمیں گاڑیوں کے اچھے میکینک نہیں ملتے۔ اسی لئے کسی گاڑی کے ماہر مستری آپ کو ہمیشہ پرانی گاڑی خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ نئی بننے والی گاڑیاں پرانے انجن کی بجائے کمپیوٹر سے زیادہ چلتی ہیں اور پٹرول سے کم۔ نئے فرج، ائر کنڈیشنر، ٹی وی وغیرہ پرانے مستریوں کی مہارت کی پہنچ سے دو رہیں۔ ہر شہر کی پچھلی گلیاں ناتجربہ کار ورکشاپوں سے بھری ہوتی ہیں۔ مرمت کے لئے آنے والی مشینیں سڑکیں بند کر دیتی ہیں کہ ماہر مستریوں کی کمی ہے۔ آپ یقین کریں کہ گاڑیوں کا تعلیم یافتہ میکینک چھوٹی عمر ہی میں ایک بڑے ڈاکٹر سے زیادہ کماتا ہے۔ اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ دو تہائی سکول کے بعد کالج کی تعلیم جاری رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں سے آدھے پوری نہیں کر پاتے۔

چنانچہ اپنے بچے کی رجحان سے مخالف تعلیم پر نہ اس کی جان لینے کو آئیں اور نہ ہی بہت زیادہ اعلیٰ تعلیم پر کروڑوں روپے خرچ کریں۔ تعلیم کا سلسلہ بزنس کے ساتھ بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے والدین کے لئے کہ اپنے بچوں کو ان کے پسندیدہ پیشے میں دسویں جماعت کی گرمیوں کی چھٹیوں میں کسی ماہر کے ساتھ ایک دو ہفتے کی خدمت کرنے دیں تاکہ اس کو آگاہی ہو کہ وہ کس کنویں میں چھلانگ لگا رہا ہے۔ میں میڈیکل کالج میں بھی پڑھاتا ہوں اور دس سے بیس فیصد طالب علم برملا کہتے ہیں کہ اس شعبے میں محض والدین کی خوشی کے لئے آئے ہیں۔

اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ ہر طالب علم کا ذہن ہر شعبے یا ہنر کے لئے موزوں نہیں ہوتا۔ اگر ایک طالب علم میتھس میں کمزور ہے تو ہو سکتا ہے وہ گرافکس میں دوسروں سے بہتر ہو۔ کسی کو نقشوں میں دلچسپی ہے تو کوئی نئی زبان سیکھنے میں آسانی محسوس کرتا ہو۔ سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنا ایک بھیڑ چال تو پیدا کر سکتا ہے، اعلیٰ معیار کا پروفیشنل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments