کیا عمران خان تنہا رہ گئے ہیں؟


فیصل آباد جلسے میں شدت جذبات یا کثرت خدشات کے زیر اثر سابق کپتان اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے پاکستانی فوج کے اگلے سربراہ کے انتخاب کے بارے میں جو گفتگو کی اس کو اکثریت نے پسند نہیں کیا۔ سوائے سابق وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد اورسابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور کسی حد تک سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے عمران خان کے موقف کی نرم وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن واضح طور پر محسوس کیا گیاکہ مذکورہ تینوں لیڈر الفاظ کو ادھر ادھر فٹ کر کے وہ کوشش کر رہے ہیں جو وہ خود جانتے ہیں کہ کامیاب نہیں ہو گی۔
گزشتہ روز خود عمران خان نے اپنے متنازع بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا بھی سارا زور نواز شریف اور آصف زرداری کی نیت پر شک کرنے پر صرف ہوا کہ ان دونوں لیڈروں کے انتخاب پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان اپنی جذباتیت سے لبریز سادگی اور عوامی مقبولیت کے تصور سے حاصل ہونے والی بے باکی کے تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اکثر توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور حساس معاملات پر گفتگو کے دوران لڑھک جاتے ہیں۔ اصل میں وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ دیکھو عوام میرے ساتھ کس طرح چل رہے ہیں اور حکومت چھن جانے کے باوجود لوگ حکومتی جماعتوں کی بجائے میرے ساتھ کھڑے ہیں اس لئے مجھ سے ہر وقت احتیاط برتنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ البتہ یہ عمران خان کی خواہش ہو سکتی ہے، مخالفین ایسا نہیں سوچتے۔
پشاور کے جلسے میں عمران خان فیصل آباد جلسے میں اپنی متنازع گفتگو کی وضاحت کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے اور ابھی تک عوام کے ذہنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی تازہ سرزنش کی بازگشت باقی ہے اور آئی ایس پی آر کے ردعمل کو بھی کوئی نہیں بھول سکا۔
ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے اندر اس بات پر تشویش پائی جا رہی ہے کہ چیئرمین عمران خان تیزی کے ساتھ ایسے ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہو گا۔ سخت رویے اور بے باک سیاست کا جس قدر فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا وہ تحریک انصا ف اور اس کے سربراہ اٹھا چکے ہیں اور وہ رفتہ رفتہ جس قسم کے تنازعات کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں اس سے فائدہ کم اور نقصان نہ صرف زیادہ بلکہ دیرپا بھی ہو گا۔ بعض حلقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ 12 اپریل کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کے ردعمل اور طرز سیاست سے متاثر ہونے والے عوام ہیں۔ وہ لوگ نہیں جنہیں ہماری سیاست میں خواص کہا جاتا ہے اور جن کے درمیان ہمارے روایتی سیاسی لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کے جلسوں اور احتجاجی ریلیوں کی رونق بڑھانے والے وہ لوگ ہیں جو پہلے ہی عمران خان کے ووٹر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان کی جماعت کو ووٹ تو دیے لیکن عملی طور پر جلسے جلوسوں میں شریک نہ ہوئے۔ ووٹر تو وہ پہلے ہی عمران خان کے تھے بس اب وہ پورے پورے خاندان کے ساتھ جلسوں میں بھی شریک ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 12 اپریل کے بعد جن لوگوں کو صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات میں جیتنے یا ہارنے کے بعد لیڈر قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے تو کوئی ایک بھی اپنی پہلی جماعت کو چھوڑ کر عمران خان کی جماعت میں شامل نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں سب کچھ عمران خان کے حوالے کر دینا یا ان کو یہ اجازت دے دینا کہ وہ جب چاہے عدلیہ کے خلاف نکل کھڑے ہوں، اگر شکوک و شبہات اور خدشے زیادہ محسوس ہونے لگیں تو سکیورٹی اداروں اور ان کے اعلیٰ عہدیداروں کو نشانے پر رکھ لیں۔ یہ ممکن نہیں، اسی لئے آسانی کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف اور جناب عمران خان سے وہ تمام آسانیاں اور سہولتیں رفتہ رفتہ واپس لی جا رہی ہیں جن سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاتے چلے آئے ہیں۔
پنجاب کی موجودہ سیاست اور صوبائی حکومت پر نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ فیصل آباد جلسے میں عمران کی متنازع تقریر کے مندرجات سے اتفاق نہ کرنے والوں میں پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بھی شامل ہیں جو دبے لفظوں میں خان صاحب کے بیان کی تردید کر رہے ہیں اور انہوں نے ٹویٹ کر کے نہ صرف اپنا موقف واضح کر دیا ہے بلکہ خان صاحب کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ جس طرف وہ نشانہ باندھے ہوئے ہیں وہ نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ مستقبل کی سیاست کے لئے تباہ کن بھی۔
جن حضرات کی سیاست ان کے میڈیا بیانات کے سہارے چلتی ہے وہ اگر بلند آواز میں یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو نااہل نہیں کیا جا سکتا، یا کوئی طاقت ایسا نہیں کر سکتی وہ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خان صاحب احتیاط کریں اور اس رویے سے گریز کریں جو انہیں مشکل کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منہ پھٹ شیخ رشید فواد چودھری سے پہلے خاموش ہوچکے ہیں۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو عمران خان کی 60 رکنی سابقہ کابینہ اور مشیروں میں سے صرف 2 یا 3 افراد ہی گرم جگہ پر پاؤں رکھ رہے ہیں، باقی 98 فیصد لمبی تان کر چپ ہیں اور حالات کے رخ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اگلے ہفتے شروع ہونے والی اہم پیشیاں منظر نامہ مزید واضح کر دیں گی اور اگرچہ عمران خان کے بڑے جلسوں میں شور برپا رہے گا اور سوشل میڈیا پر بھی مخالفین پر گولہ باری جاری رہے گی لیکن تحریک انصاف کی صفوں میں مزید سکوت طاری ہو جائے گا۔ یہ وہ موقع ہے کہ جناب عمران خان کو بھی نہایت توجہ کے ساتھ اپنی رفتار کا جائزہ لینا چاہیے اور 12 اپریل سے اب تک جتنے سگنل وہ توڑ چکے ہیں، انہی پر اکتفا کر جائیں اور قواعد کی مزید خلاف ورزی سے وہ کسی موڑ پر اپنے لائسنس سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments