عالمی ”پیراڈائم“ اور ملکی سیاست!


سوال یہ نہیں کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا؟ ، یا عمران خان کی منظر عام پر آنے والی مختلف حرکات، غیر سیاسی بیانات، توہین عدالت کے معاملات و تاریخی حوالے کیوں عوام کو غیر سنجیدہ بتا کر ان کے جرائم اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کو چھپانے یا صرف نظر کرنے کا کام بار بار بیل آؤٹ کر کے کیا جا رہا ہے، سوال یہ بھی نہیں کہ فوجی قیادت پر اس کے ماورا آئین اقدامات کی روشنی میں تنقید نہ کی جائے، ملکی سیاسی تاریخ میں ہر زمانے اور سیاسی حالات کے تناظر میں فوج کی سیاست میں مداخلت پر ہمیشہ سیاسی طرز سے تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ سیاسی حقوق کی تحاریک کمیونسٹوں، ڈی ایس ایف، این ایس ایف سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی قدر نواز شریف نے بھی چلائیں اور ان سیاسی تحاریک نے اپنے ہدف حاصل بھی کیے ہیں جس کی مثال جنرل ایوب کے جبری ون یونٹ بنانے کی غیر جمہوری سوچ تھی، جس یک طرفہ قانون کو عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب کی فوجی قیادت کو ختم کرنا پڑا۔

اس سوال پر بھی ابتدا ہی سے سیاسی قیادت اور فوجی جنرلز کے درمیان تضاد رہا کہ یہ ملک جمہوری انداز سے چلے یا اسے سیکورٹی اسٹیٹ بنایا جائے؟ جمہوری قوتیں ملک میں ہمیشہ جمہوری طرز حکمرانی پر زور دیتی رہیں جبکہ، اقتدار کے خواہاں جنرلز کا موقف رہا کہ خطے کے حالات کے تناظر میں اسے ”سیکورٹی اسٹیٹ“ بنایا جائے، سیاست دانوں اور فوجی قیادت کے درمیان یہی وہ بنیادی تنازعہ تھا کہ جس نے ملک میں کم و بیش 24 برس آئین نہ بننے دیا، اور پھر ملک کے دو لخت ہونے کے بعد فوجی قیادت نے اپنی ہم خیال سیاسی مذہبی جماعتوں کو ہمنوا بنا کر ”نیم سیکورٹی اسٹیٹ“ کے طور پر 1973 کے متفقہ آئین کو مجبوری میں قبول کیا، فوجی قیادت کی جانب سے 73 کے آئین کی کڑوی گولی کو چھ برس بھی برداشت نہ کیا گیا اور نظام مصطفی کی تحریک ذریعے جمہوری اور منتخب حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوشش شروع کر دی گئی اور 1979 میں جنرل ضیا کے ذریعے ملک میں امریکی حمایت سے مارشل لا لگادیا گیا، جنرل ضیا نے متفقہ آئین کے خلاف اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا اور دھڑا دھڑ من پسند مطلق العنان ترامیم کر کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔

آئین سے انحراف پر جنرل ضیا کے خلاف ایم آر ڈی کی منظم سیاسی تحریک ابھری اور غیر آئینی اقدامات و ترامیم کو نہیں مانا گیا، گو جنرل ضیا کے غیر آئینی اقتدار اور ترامیم میں ”جماعت اسلامی“ فوجی نکتہ نظر کی ہر اول سیاسی جماعت کے طور پر جنرل ضیا کی کابینہ کا حصہ بھی رہی اور فوجی نکتہ نظر کی مذکورہ جماعت نے جنرل ضیا کی جانب سے آئین کے بر خلاف ملک کو ”سیکورٹی اسٹیٹ“ رکھنے میں غیر آئینی مدد بھی کی۔ سیاست دانوں کے جمہوری اصولوں کے بر عکس فوجی قیادت کے ”سیکورٹی اسٹیٹ“ رکھنے کے بیانیے کی یہ جنگ یا جدوجہد تا حال جاری ہے۔

جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کی کمزور آواز کے مقابل فوجی قیادت نے ”سیکورٹی اسٹیٹ“ کے بیانیے کو کبھی قومی سلامتی تو کبھی اسلام کا قلعہ بنانے کی کوششیں اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کے ذریعے جاری رکھیں، اور گاہے گاہے ”سیکورٹی اسٹیٹ“ کے غیر آئینی موقف کو قائم رکھنے کے لئے اپنی سیاسی جماعتوں کے چولے بھی تبدیل کیے ، تاریخی طور پر جماعت اسلامی کو مذہبی کارڈ کے حوالے سے افغان جنگ میں استعمال کر کے امریکی ڈالروں کا حصہ دار بنایا، مگر زمانے کی ارتقائی تبدیلی کے خوف سے اسی جماعت کے قاضی حسین کو ماڈرن مذہبی اور تبدیلی پسند رہنما کے طور پر پیش کیا۔

خطے کی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی غرض سے اور آمرانہ مزاج کی ”سیکورٹی اسٹیٹ“ قائم رکھنے والی جماعت اسلامی کو پھر حالات کے تقاضوں کے تحت پیچھے دھکیلا گیا اور ان کے مقابل لسانیت کا عوامی تقسیم بیانہ لا کر ملک کے سب سے اہم معاشی شہر میں ایم کیو ایم بنائی اور یوں جماعت اسلامی کو زندہ رکھنے کے لئے تنفس بہم پہنچایا بھی جاتا رہا، جس میں میئر ستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو لانے کی حکمت عملی دیکھی جا سکتی ہے۔

سیکورٹی اسٹیٹ کے بیانیے کے وکیلوں نے ایم کیو ایم کے تجربے سے پہلے ہی ”فاشسٹ“ تربیت پر جماعت اسلامی فکر کے ”عمران خان کی سیاسی تربیت طالبان فکر کے جنرل حمید گل کے سپرد کر رکھی تھی اور اقتدار کی سیاسی راہداریوں میں تحریک انصاف کی پہچان بھی کراتے رہے تھے تاکہ جماعت اسلامی کی مذہبی فکر سے نالاں ماڈرن نسل کی مراجعت“ ہیرور شپ ”پر ہو جو کہ جنرل ایوب کے“ سیکورٹی اسٹیٹ ”بنانے کی ان کوششوں میں معاون و مددگار ہو جو ملک کو جمہوری ریاست کے مقابل جمہوری چولا پہن کر سیکورٹی اسٹیٹ بنائے، سوچ و فکر کا یہ تضاد آج بھی عمران خان اور جمہوری قوتوں کے مابین پوری شدت کے ساتھ کھڑا ہے۔

سردست موجودہ سیاست میں جمہوریت کے مقابل سیکورٹی اسٹیٹ بنانے کی کوششیں رکی نہیں ہیں، بلکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ملکی سیاسی تاریخ سے بے خبر غیر سیاسی نسل کو ایک مرتبہ پھر ”ہیرو ور شپ“ کے بخار میں مبتلا کر کے عمران خان کی مدد اور بیانیے سے ”سیکورٹی اسٹیٹ“ ، کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کی فاشسٹ طرز پر وہ خطرناک کوشش جاری ہے، جس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اس پوری ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں اور کن مقاصد کے تحت عمران خان کو سیاست میں لایا گیا اور اپنے خاص مطلوبہ اہداف کے لئے چنا گیا، آیا ان کی وجوہات کیا تھیں اور کیا ہو سکتی ہیں، سیاسی حالات و قرائن اور تجزیے کے پیچ و خم سے یہ گتھی سلجھانے میں چند معروضات اہل دانش و فکر کے سامنے پیش خدمت ہیں۔

1، عمران خان ہی کیوں۔ ؟

سوشل میڈیا ٹیکنالوجی میں رنگین مزاج کے کرکٹر عمران خان کو جہاں ہیرو بنانے کے قرائن بتاتے ہیں وہیں واقفان حال کے مطابق گولڈ اسمتھ کی مدد سے ورلڈ کپ جتوانے کے محرکات میں عمران خان کی جمائمہ سے شادی سے لے کر مستقبل کے لئے امریکی Paradigm یعنی غیر جمہوری طرز فکر نمونہ اپنانے کے لئے چنا گیا، جس میں شہرت اور ہیرور شپ کی ایڈورٹائزنگ کی مدد لے کر آج کی سوشل میڈیا کے ٹول کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور جنرل ضیا کی طلبہ سیاست کی نس بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر سیاسی نئی نسل کو ”ہیرو ور شپ“ میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی جسے آج عمران خان کی پلانٹڈ سیاست میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بیک وقت خاص منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ بولنا اور عوام کے تبصروں میں رہنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے، جو بظاہر تو جھوٹ اور غلط تاریخی حوالوں سے عبارت ہے مگر یہ عالمی منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈا مارکیٹ کی اصطلاح میں عوام کے اندر مسلسل رہنے اور شہرت حاصل کرنے کا منفی مارکیٹنگ طریقہ ہے، جسے، نظریاتی سوشلسٹ اور سنجیدہ جمہوری و سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو نہ صرف بہت باریکی سے دیکھنا ہے بلکہ غلط معاشی اعداد و شمار پیش کرنے کی منفی مارکیٹنگ ”جن“ کے مقابل مثبت سیاسی و سماجی دور رس ٹیکنالوجیکل طریقہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

2۔ حاکمیت کا تضاد اور پیراڈائم کی تبدیلی کا سوال؟

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہماری عسکری سپاہ کی بنیاد اور تربیت کا ادارہ برطانوی طرز یعنی Paradigm نمونے پر رہا اور فوجی ادارے کی بنیادی تربیت اور ذہن سازی برطانوی طرز عسکریت پر رہی، جس کا تاریخی ثبوت ابتدائی دو برطانوی آرمی چیف تھے، اس پیراڈائم کو تبدیل کرنے کی ابتدائی کوششیں برطانوی آرمی چیف کے بعد ہی شروع ہو چکی تھیں جن میں سب سے زیادہ متحرک اس وقت کے میجر اور بعد کے جنرل ایوب تھے، جنہوں نے لیاقت علی خان کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کی اور آخر کار جنرل اسکندر مرزا کو فارغ کر کے ملک میں پہلا مارشل لا لگایا اور خطے کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر سیٹو سینٹو میں روس کے مقابلے میں ریاست کے جھکاؤ کا پلڑا ”امریکی سامراج“ کی جانب کیا، اس وقت خطے کی صورتحال کے پیش نظر امریکہ کو ایک آمرانہ سوچ کا فرد چاہیے تھا جو خطے میں ان کے مقاصد اور مفادات کا تحفظ کرسکے، لہذا امریکی سامراج نے جنرل ایوب کو دامے درمے اور سخنے نہ صرف قبول کیا بلکہ جنرل ایوب کے غیر جمہوری اقتدار کو عالمی طور سے تحفظ بھی دیا، تاریخ کے تناظر میں یہ بات ذہن میں رہے کہ برطانوی سامراج اس عمل سے نہ بے خبر تھا اور نہ لا تعلق، بلکہ اس وقت برطانوی سامراج اپنے اوپر عالمی طور سے اقتدار کی تنقید کا نشانہ تھا، سو اس نے پاکستان کی فوج کے پیراڈائم شفٹ ہونے پر خاموشی اختیار کی اور علمی بدنامی سے بچنے کے لئے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچایا، گو دونوں ممالک کے رابطے اور سفارتی معاملات کبھی نہ بگڑے اور نہ دونوں نے مشترکہ مفادات میں بگڑنے دیے، جس کا عکس ٹونی بلیئر کی عراق کے خلاف مشترکہ چڑھائی میں دیکھا جا سکتا ہے۔

امریکی پیراڈائم کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور جنرل مشرف تک بہت منصوبہ بندی کے تحت جاری رکھا یا چلایا گیا جبکہ برٹش رائل اکیڈمی ان سارے حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے بھی اپنے عالمی اتحادی امریکہ کی وجہ سے خاموش رہی یا مشترکہ مفادات کی وجہ سے تضاد نہ بنایا گیا، مگر جنرل ضیا کے خاتمے اور سرد جنگ کے اختتام بعد امریکی طالبان نے خطے میں متوازی پیراڈائم میں تھرڈ فورس کے ذریعے جب اپنی من مانی شروع کی جسے کسی نہ کسی طرح امریکی اتحادی کے ناتے یہاں کی فوجی قیادت سہولت فراہم کرتی رہی، تو پہلی مرتبہ برطانوی پیراڈائم نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ذریعے امریکی پیراڈائم کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا مگر جنرل آصف نواز کی موت نے برطانیہ کے اس غیر محسوساتی حملے کو ناکام کر دیا، اسی خدشے کے پیش نظر جنرل مشرف کو لایا گیا اور امریکی پیراڈائم کی تکمیل کرائی گئی، مگر پھر پرویز کیانی کے ذریعے جمہوری قوتوں نے آصف زرداری کی مدد سے آئین کو اپنی اصل صورت میں اٹھارہویں ترمیم ذریعے بحال کروایا۔ یوں۔ ملک میں موجودہ عسکری تضاد کو امریکی پیراڈائم اور برطانوی پیراڈائم میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کی شفٹنگ کا یہ خاموش مگر معنی خیز تضاد ہے۔

امریکی آمرانہ طرز کے پیراڈائم کو جوں کا توں رکھنے میں عمران خان کے ساتھ گولڈ اسمتھ سمیت امریکی مفادات کے افراد کی اس امریکی لابی کے خدشے کو بھی خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا جس کی گرفت امریکی معاشی نظام پر بہت مضبوط ہے، اسی تناظر میں ”باجوہ ڈاکٹرائن“ کی شد بد کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے سیاسی ماحول کی گاڑی کو چلانے والی اٹھارہویں ترمیم میں جمہوری آئین کی بحالی پر پھر ایک مرتبہ جنرل ایوب کے یک طرفہ طاقت اور اقتدار اپنے پاس رکھنے والوں کا کھیل شروع کیا گیا، جس میں یک طرفہ طاقت کا ایوبی نظام لانے کے لئے موجودہ سربراہ کو آمادہ کر کے حمید گل کے تربیت یافتہ عمران خان کو لایا گیا جس کی عالمی طور پر مکمل مارکیٹنگ میں جمائمہ کے متحرک ہونے کے شواہد دیکھے جا سکتے ہیں۔

فاشسٹ اور آمرانہ طرز حکومت کے مقابل دوسری جانب اپنے عسکری وجود کو قائم رکھتے ہوئے آئین کے مطابق جمہوری قوتوں کو شریک کار بنانے کی سوچ ہے، جس میں فاشسٹ پیراڈائم کی ترجمانی عمران خان کے بیانات اور سوچ سے بخوبی لگائی جا سکتی ہے، جبکہ قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان کو ”پلانٹ“ اور بیل آؤٹ کرنے والے چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو ختم کریں یا جنرل ضیا کی طرح اس ترمیم کا حشر نشر کر دیں جبکہ دوسری سوچ کا پیراڈائم ان کی فاشسٹ سوچ کے مدمقابل اب تک ایک بہت مضبوط اور مثبت سوچ کی رکاوٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ اصل جنگ اور تضاد جمہوری سوچ اور فاشسٹ یا آمرانہ سوچ کے نکتہ نظر کا ہے، جسے جتنی جلد سمجھ لیا جائے گا، اتنا ہی جلد امکانات ہیں کہ ملک آہستہ آہستہ جمہوریت کی جانب گامزن ہونا شروع ہو جائے گا۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments