یونیسکو اور یونیسیف: شورش زدہ ممالک میں بچوں کی حالت زار


کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق تعلیمی اداروں پر حملوں کے واقعات سے بچوں کے ذہن براہ راست متاثر ہوتے ہیں، ان کی شخصیت پر اس کا برا اثر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔ یہ برے اثرات ریاست پر مرتب ہوتے ہیں۔ ناخواندہ بچے تخریب کارانہ افراد کا آسان ہدف ہوتے ہیں، وہ ان معصوموں کو استعمال کر کے اپنے ناپاک مقاصد کو بہت آسانی سے حاصل کرتے ہیں۔

درسگاہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں بچے نا صرف تعلیم بلکہ متوازن زندگی کے اصول بھی سیکھتے ہیں۔ دہشت گرد درسگاہوں پر حملے کر کے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں 2008 اور 2010 کے درمیان صوبہ بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں نے 22 اساتذہ کو قتل کیا، ٹی ٹی پی، الشہاب اور افغان طالبان خوف کی فضا کو مزید گرم کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں درسگاہوں پر 847 حملے ہوئے، جس کا تناسب 23.15 فیصد بنتا ہے، اس کے بعد افغانستان 6.29 %، عراق 6.15 %، بھارت 6.15 %، تھائی لینڈ 5.88 %، امریکہ 5.88 %، ترکی 3.47 % اور فلپائن 3.23 % میں تعلیمی اداروں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا گیا۔ درسگاہوں پر حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں، جن کی تعداد 410 بتائی جاتی ہے، ہلاکتوں کے لحاظ سے عراق دوسرے نمبر پر رہا، حالانکہ عراق میں پاکستان کے مقابلے تعلیمی اداروں پر بہت کم حملے رپورٹ ہوئے ہیں، ان ہلاکتوں کے لحاظ سے روس تیسرے نمبر پر رہا، جہاں 25 تعلیمی اداروں پر جارحیت کے مناظر دیکھنے میں آئے۔

پاکستان میں تعلیمی اہداف کے خلاف سب سے زیادہ حملے کے پی کے اور سابقہ ​​فاٹا میں رپورٹ ہوئے، جن کی تعداد 439 ہے، اس کے بعد سابقہ فاٹا، جہاں تعلیمی اہداف پر 255 حملے ہوئے۔ بلوچستان میں 70، سندھ میں 53، پنجاب میں 26، اسلام آباد میں 3 اس قسم کے بھیانک واقعات رونما ہوئے۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں پر حملوں میں ایک درجن سے زائد دہشت گرد گروپ ملوث ہیں۔ 20 فیصد مذہبی انتہاپسند تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کیا، 0.8 بلوچ علیحدگی پسند ان حملوں کے ذمہ دار رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند گروہوں میں سے، ٹی ٹی پی نے 17 فیصد حملے کیے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں نے تعلیمی اہداف پر سات بار حملہ کیا اور 2.93 فیصد ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر 16 دسمبر 2014 کو ٹی ٹی پی نے حملہ کیا تھا جس میں 130 سے ​​زائد بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس طریقہ واردات نے پاکستانیوں کو مکمل ہراساں کر دیا، لوگ اپنے بچوں بھیجتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے تھے، آج بھی سولہ دسمبر کی درندگی ہماری آنکھ نم کر دیتی ہے، جب ٹیلی وژن اسکرین پر چلنے والے وہ مناظر یاد آتے ہیں تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر پاکستان نے بہت پرتشدد حملوں کا مقابلہ کیا ہے، لیکن اے پی ایس نے انسانی برداشت کی ہر حد کو پار کر دیا، جس کے بعد پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا، اور ملک کے کونے کونے سے دہشتگردوں کو چن چن کر واصل جہنم کیا،

حکام کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا۔

آرمی پبلک اسکول کے والدین اور ان کے بچوں کی ہمت کو سلام جن قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اے پی ایس کے شہداء کی قربانیوں کی وجہ سے ہی قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ خونریزی اور اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندانوں کے لیے یہ کبھی نہ ختم ہونے والا غم ہے۔ کچھ سانحات اتنے روح پرور، اتنے یادگار ہوتے ہیں کہ قوم کے اجتماعی شعور پر ان کا نقش مستقل طور پر نقش رہتا ہے اور اے پی ایس حملہ بدقسمتی سے حالیہ تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments