جرمنی میں بھی غیرت کے نام پر قتل


”غیرت کے نام پر قتل“ کی اصطلاح، ایک خاندان کے کسی فرد کو، خاندانی روایات اور خاندان کے اندرونی طرز عمل کی ممکنہ خلاف ورزی کرنے پر، سزا دینے اور خاندانی عزت و آبرو کو دوبارہ بحال کرنے کے طور پر، بھائی، بہن یا باپ کی طرف سے، اس فرد کو قتل کرنا ہے۔

مارچ 2005 میں جرمنی کے مختلف اخبارات میں، یہ خبر چھپی تھی کہ 7 فروری 2005 کو، ایک 23 سالہ ترک کرد نژاد جرمن خاتون کو غیرت کے نام پر، اس کے سکے بھائی نے، بالکل قریب سے، سر پر تین گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ قتل کے ایک ہفتہ بعد ، پولیس نے اس کے تینوں بھائیوں کو اجتماعی قتل کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ سب سے چھوٹے بیٹے نے سارا الزام اپنے اوپر لے کر اپنے بڑے بھائیوں کو بری الزمہ قرار دلوانے میں مدد کی تھی۔

جرمنی کی مختلف عدالتوں میں یہ کیس چلتا رہا۔ اور آخرکار 13 اپریل 2006 کو، صرف چھوٹے بیٹے کو 9 سال، تین ماہ کی ”نا بالغہ سزا“ قید ہوئی تھی۔ ترکیہ میں بھی پہلے جولائی 2013 میں، قتل کیس میں، مجرمان، دونوں بڑے بھائیوں کے خلاف نیا کیس کھولا گیا لیکن، وہاں بھی، برلن کی عدالت کی طرح، دونوں بھائیوں کو بری کر دیا گیا لیکن پھر اسی بنا پر 22 فروری 2018 کو، اس کیس کی عدالتی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تھی جس کے متعلق مزید معلومات موجود نہیں ہیں۔

قاتل (چھوٹا بھائی) اپنی سزا بھگتنے کے بعد ترکیہ ڈیپورٹ کر دیا گیا تھا۔ وہ آج بھی ترکیہ میں رہتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کو اپنی سگی ہمشیرہ کے قتل کرنے کا بالکل ملال نہیں۔

مقتولہ کے والد جو 80 کی دہائی میں، دوسرے ترکیہ ورکروں کی طرح، جرمنی میں بطور مہمان ورکر آئے تھے، برلن میں رہتے تھے۔ مقتولہ اپنے 8 بہن بھائیوں کی طرح برلن میں پلی بڑھی تھی۔ مقتولہ کے والدین، اس کے چال چلن سے خوش نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اس کی مرضی کے خلاف اس کے کزن، جو ترکیہ میں تھا، کے ساتھ اس کی زبردستی شادی کر کے استنبول بھیج دیا تھا۔ اس وقت مقتولہ کی عمر 16 سال تھی۔ شوہر اور سسرالیوں سے ان بن کی وجہ سے، مقتولہ، جو حاملہ تھی، اکیلی برلن واپس آ گئی۔

برلن میں وہ اپنی زندگی، خاندانی روایات سے آزاد رہ کر، گزارنا چاہتی تھی اس لئے وہ اکتوبر 1999 کو، اپنا پیدائشی گھر چھوڑ کر، کمسن ماؤں کے لئے مختص سرکاری ہوسٹل میں منتقل ہو گئی جہاں اس نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا تھا اور وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے کو خاندان کے حوالے نہ کیا جائے۔

بعد میں وہ اکیلی ایک ذاتی اپارٹمنٹ میں رہنے لگی۔ اس کا آبائی گھر بھی برلن کے اسی ضلع میں تھا۔ اگرچہ دو۔ تین بہن بھائیوں کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے تین بڑے بھائیوں کو اس کا اکیلا رہنا اور آزادانہ زندگی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ وہ ایک پرہیزگار اچھی مسلمہ تھی اور ہمیشہ کوشاں تھی کہ اس کے والدین اس کو قبول کریں۔ وہ صرف، والدین کی خواہش کے برعکس، حجاب نہیں لیتی تھی۔ بھائیوں کی طرف سے قتل کی دھمکیوں کے وجہ سے، اس نے پولیس کو حفاظتی درخواست دے رکھی تھی لیکن حفاظت اس کو کبھی نہیں ملی۔

ان دنوں، نہ صرف برلن بلکہ تمام جرمنی میں اس خبر کا چرچا تھا۔ برلن کے مختلف گروہوں کی طرف سے، اس قتل پر مذمتی قراردادیں پاس ہوئیں اور مظاہرے بھی ہوئے۔ آج بھی، قتل کی وقوع پذیر جگہ پر ایک یادگاری پتھر، جس پر مقتولہ کا نام لکھا ہوا ہے، موجود ہے جہاں لوگ پھول چڑھاتے ہیں۔

برلن۔ نیو کولون کے ایک اسکول کی آٹھویں جماعت کے تین طالبعلموں کی طرف سے، اس قتل کی کھلی حمایت کے نتیجے میں، جماعت کے ٹیچر نے اسکول کے ڈائریکٹر کو خط لکھا کہ ایسے طالب علموں کے مائنڈ سیٹ کو روکنا ضروری ہے۔ برلن کی صوبائی حکومت نے اسکولوں میں، ”اقدار کی تعلیم“ نامی نئے مضمون کو نصاب میں شامل کرنے کا کہا تھا۔

اس قتل پر ”غیرت کے نام پر قتل۔ جرمنی کی ایک قسمت“ نامی کتاب بھی لکھی گئی ہے جس پر ”صرف ایک عورت“ نامی ڈاکومنٹری بھی بنی تھی۔ اس ڈاکومنٹری ڈرامے کو برلن فلم فیسٹیول 2018 میں دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، مقتولہ کی پندرہویں برسی سے ایک ہفتہ قبل، 29 جنوری 2020 کو، جرمن ٹیلیویژن پر بھی یہ ڈرامہ نشر کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments