فلاحی اداروں کی غیر فلاحی حرکتیں


آج سے کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک ایمبولینس گھومتی تھی اور مائیک سے صرف ایک روپے کی فریاد کرتی تھی، درد بھرے جملے کی ان کی فریاد تھی جو ہر تھوڑی دیر بعد دہرائی جاتی تھی۔ ایمبولنس سے بلند ہوتی فریاد دل پر لگتی تھی اور کافی لوگ اس کے آگے چلتے ہوئے رضاکار کے باکس میں پیسے ڈالتے تھے۔ التجا ایک روپے کی تھی مگر میں نے کبھی ایک روپے اس بکس میں ڈلتے نہیں دیکھیں، ہمیشہ زیادہ ہی دیکھیں۔ ہفتے میں ایک ایمبولینس کا چکر میری گلی میں ضرور لگتا تھا۔

ایک دن میں نے رضاکار سے سلام دعا کرنے کے بعد پوچھ لیا کہ بھائی تمھاری این جی او کا ہیڈ آفس کہاں ہیں اور ایمبولینس سروس کے علاوہ دوسرے فلاحی کام کیا کرتے ہو؟ رضاکار بھائی جھجکتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارا ہیڈ آفس تو کوئی نہیں البتہ دو ایمبولینس ہے، میں اور ڈرائیور دیہاڑی پر ہیں اور اس ایمبولینس کا پیٹرول مالک دیتا ہے۔ پیسے والا باکس مالک اپنے ہاتھ سے کھولتا ہے اور ان کی اور کوئی فلاحی سرگرمیاں نہیں ہیں اور یہ ایمبولینس بھی ہفتے کے چھ دن دوسرے علاقوں سے صرف پیسے جمع کرتی ہے۔

یہ تو ہو گیا ایک واقعہ، اب دوسرا سنئے۔ ہمارا کیٹرنگ والا دوست ہمیں بتاتا ہے کہ ایک این جی او رمضان میں ان سے افطاری بنواتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات ان کی عجیب منطق ہوتی ہے۔ ایک بار انھوں نے مجھے بولا کہ آپ نے حلیم بنانی ہے 5 دیگ مگر اسے 10 دیگوں میں لے کر آنا ہے۔ میں حیران تھا مگر اس این جی او کے مالک کی اسی رات کو سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ”آج ہم نے 10 دیگ حلیم کی افطاری بنوائی ہے جس کی لاگت یہ آئی ہے۔“ میں نے جب لاگت سنی تو حیران ہوا، مگر بات یہ سمجھ میں آئی کے ڈونرز کو بھی دکھانا ہوتا ہے البتہ ڈونر دیگ کھول کر چیک کرنے سے تو رہا کے مقدار پوری ہے یا آدھی۔

بہرحال، آج کل کراچی کی سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کیمپ نظر آ رہے ہیں اور اس پر بینر لگے ہیں امدادی کیمپ برائے متاثرین سیلاب۔ ہر کیمپ میں بہت سا سامان موجود ہے جو عوام نے جمع کروایا ہے۔ کچھ کیمپ سیاسی جماعتوں کے ہیں اور کچھ فلاحی اداروں کے ہیں جو بلاشبہ یہ سامان سیلاب زدگان تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں گے ۔ مگر آپ غور کریں تو اکثر کیمپ ان این جی اوز کے ہوں گے جس کا نام آپ نے پہلی بار سنا ہو گا۔ اکثر این جی اوز کا حقیقت میں کوئی وجود بھی نہیں مگر اس موقع پر کے جب پورے ملک میں ایمرجنسی سی نافذ ہیں یہ لوگ اس کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اس موقع پر امداد دے رہے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ عوام تک مدد پہنچانا بھی چاہتے ہیں اس وجہ سے وہ فلاحی اداروں کو اپنی امداد پہنچا رہے ہیں تاکہ مشکل میں گھرے پاکستانیوں کی مدد ہو سکیں لیکن ان کو شاید اندازہ نہیں کہ بہت سی تنظیمیں صرف بینر کی حد تک ہیں اور ان کے امداد حقدار نہیں پہنچیں گی۔

یقیناً بہت سے پاکستانی اس مشکل میں پاکستانیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ لیکن کیا ان کی امداد پہنچ بھی رہی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ امداد دینا بہت آسان مرحلہ ہے مگر یہ پہچان کیسے ہو یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ موقع پرست لوگ ہر مشکل موقع پر متحرک ہو جاتے ہیں اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کا آسان حل تو یہ کہ اگر آپ کسی کو پرسنلی جانتے ہیں جو فیلڈ پر موجود ہیں اور کام کر رہا ہے تو ان تک اپنی امداد دے یا پھر ان لوگوں سے ہی حقیقی فلاحی اداروں کے بارے میں پوچھئے۔

یاد رکھیں جو واقعی اس سیلاب کو آفت سمجھ رہا ہو گا وہ یہ نہیں بولے گا کہ آپ ہمیں امداد دو بس ہم ہی اچھا کام کر رہے ہیں اور دوسرے لوگ صرف جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ وہ نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریاں بتائیں گے بلکہ وہ اچھے اداؤں اور ضروریات کی چیزیں بھی بتائیں گے کیونکہ ان کا مقصد انسانوں کی مدد ہو گا نہ کے اپنے این جی او کے لئے فنڈز جمع کرنا۔

یاد رکھیں، نوسر باز کو بس موقع چاہیے ہوتا ہے نوسر بازی کا ، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ سیلاب ہے یا پھر زلزلہ، اس کا کام بس کسی طرح پیسے حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ سیلاب کا موقع بھی اس کے لئے گولڈن موقع ہے بلکہ معذرت کے ساتھ یہ موقع ان کے لئے عید کا موقع ہے کیونکہ یہ اپنی نوسر بازی سے کافی رقم بنا لیں گے اور امداد ہڑپ کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments