کیا مرد ماہواری کے پیڈز نہیں خرید سکتا؟


ہم روزمرہ زندگی میں مختلف اشیائے زندگی خریدنے کے لئے بازار کا رخ جب کرتے ہیں تو عموماً گھر کی خواتین سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ آیا ان کو کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔ چنانچہ گھر میں موجود ماں، بہن اور بیوی اپنی اپنی اشیاء کی ایک فہرست ہمارے ہاتھ کرتی ہیں، جن میں بہن کے لئے نومی بھائی کے جنرل سٹور سے رنگ گورا کرنے والی کریم، امی کے لئے افی بھائی کی دکان سے موٹی اون کا ایک پیکٹ وغیرہ جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔

ان دو سے ہٹ کر جب بیوی کے پاس جاتے ہیں تو وہ اپنی پسند والے پیڈز کا جب ہمیں کہتی ہے تو ہم آگے سے غصہ کر کے لانے سے انکار کرتے ہیں، اور مختلف حیلے بہانے بنا کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ”کیا ہو گیا ہے تمہیں اب میں پیڈز بھی تمہارے لئے خریدوں گا؟ میں؟ نہ بابا مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا“ ۔ ”تو پھر میں کس سے کہوں؟“ بیوی جب آگے سے استفسار کرتی ہے تو مرد کا ایک ہی گھسا پٹا جواب کہ ”خود جا کر لے آؤ۔ میں نہیں لا سکتا“ ۔ ذرا ہم تصور کریں کہ جو چیز ہم مرد ہو کر ایک دکاندار سے مانگتے ہوئے شرماتے ہیں، تو عورت کی کیا حالت ہوتی ہوگی؟

ہمارے یہاں چھوٹے شہروں میں یہ اشیاء عموماً میڈیکل سٹورز یا جنرل سٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں جن میں مرد کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور خواتین جب ان سٹورز پر جاتی ہیں تو وہاں سیلز مین حضرات کو ایک کونے میں لے جا کر خاموشی سے بتا رہی ہوتی ہیں اور دکان کا دیگر عملہ بمع خریدار حضرات انتہائی مشکوک نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر کہیں مرد الا ماشاء اللہ جاتے بھی ہیں تو وہ بھی شرم سے عرق عرق ہوئے جاتے ہیں اور گھنٹہ بھر تو منہ ہی نہیں کھول پاتے کہ ان کو پیڈز چاہئیں۔

ماہواری ایک عارضہ ہے جو فطرت نے عورت کے اندر رکھا ہے اور کوئی بھی عورت اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ تو جیسے ہم دیگر بیماریوں کی صورت میں دوائی کا نام لیتے شرم نہیں کرتے تو پھر ماہواری کے پیڈز مانگنے میں شرم کیسی؟ کیا یہ عارضہ صرف ایک گھر کی ہی خواتین کو لاحق ہے؟ ایسا ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ہر گھر کا مسئلہ ہے تو جب بات ہر گھر کی ہو تو پھر مسئلہ کیسا؟ اگر ہم تصور کریں کہ وہ بیوی کتنی خوش ہوتی ہوگی جس کا شوہر اس کی اس ضرورت کا بھی خود خیال رکھتا ہے اور اس کے طلب کرنے پر پیڈز لاکر اس کے حوالے کرتا ہے۔

مگر اس کے برعکس ہمارے ہی معاشرے میں ایسے مرد بھی ہیں جن کے لئے یہ بات ان کی مردانگی اور غیرت کے خلاف ہے۔ ان کو بیوی کے پیڈز لانے پر غیرت اور مردانگی یاد آجاتی ہے، مگر ان کی بیوی کس مشکل سے ایک غیر مرد کے سامنے پیڈز طلب کرتی ہے اس پر ان کی مردانگی اور غیرت ستو پی کر سو رہی ہوتی ہے۔ لہذا ہمیں بطور مرد اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ماہواری کے پیڈز خریدنا کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس سے ہماری غیرت کو بٹہ لگتا ہو۔

بلکہ یہ بھی ضروریات زندگی میں سے ایک ضرورت ہے، جو ہر گھر کی خواتین کی ضرورت ہے۔ اور جیسے ہم رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور لوشن مانگنے میں نہیں شرماتے، تو پھر پیڈز مانگنے میں ہمیں کوئی شرم نہیں آنی چاہیے۔ اس فضول سوچ کو ہمیں ترک کر دینا چاہیے کہ میں سیلز مین سے جب پیڈز مانگوں گا تو وہ مجھے کن نظروں سے دیکھے گا۔ ہمیں ان سے کہیں زیادہ اپنی بیوی کا خیال رکھنا چاہیے، جس کی یہ بنیادی ضرورت ہے۔

اب حالیہ دنوں میں ایک ایسی ہی بحث دیکھنے کو ملی جب پاکستان کی کچھ خواتین نے سیلاب زدہ علاقوں کی خواتین کے لئے یہ پیڈز پیک کر کے وہاں خواتین کے حوالے کرنے سے متعلق بات کی تو کئی مرد حضرات ان کی مخالفت پہ آمادہ ہو گئے۔ ان کے نزدیک ماہواری کے پیڈز تقسیم کرنے سے کہیں ضروری، اشیائے خورد و نوش کی فراہمی ہے لہذا یہ پیڈز کی تقسیم کا عمل وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہے۔ دوسری جانب ان خواتین کا موقف بھی اپنی جگہ صائب تھا کہ یہ بات خواتین ہی جانتی ہیں کہ وہ ان خاص دنوں میں کس کرب سے گزر رہی ہوتی ہیں، اور پھر اگر خون نکل کر سامنے دکھائی دینا شروع کردے تو ان کے لئے کس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ وہاں بھائیوں اور باپ کی موجودگی میں کھڑی رہیں۔ چنانچہ ایسی تمام خواتین کے لئے پیڈز کی فراہمی بلا شک و شبہ ایک بہت اچھا عمل ہے جس کی داد نہ دینا یقیناً زیادتی والی بات ہے۔

جیسے سیلاب زدہ علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی فراہمی اہم ہے ویسے ہی ان پیڈز کی فراہمی بھی بہت احسن اقدام ہے۔ یہ دونوں کام اپنی جگہ درست ہیں تاہم مسئلہ ہماری سوچ اور اعتدال پسندی کا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے نزدیک پیڈز کی تقسیم سرے سے درست ہی نہیں ہے، اور دوسروں کے نزدیک یہ زیادہ اہم کام نہیں ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں کام ہی ضروری ہیں تاہم اعتدال کے ساتھ۔ اگر ہم نے ساری رقم ہی پیڈز کی خریداری پر صرف کردی اور وہاں کھانے کی قلت ہے تو یہ بھی غلط ہے۔

لہذا ایک طریقہ کار وضع کیا جائے اور پھر اس کے مطابق مناسب رقم پیڈز کے لئے وقف کر کے، باقی رقم سے اشیائے خورد و نوش خرید کر وہاں پہنچا دی جائے۔ کیونکہ ماہواری بھوک سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کسی گھر میں ماہواری کے پیڈز کا ڈھیر ہم نے پہنچا دیا ہے مگر وہاں کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے تو کیا اب اہل خانہ پیڈز کھائیں گے؟ سو کسی بھی عمل میں افراط و تفریط سے ہٹ کر معتدل راستہ اگر اپنایا جائے گا، تو اس سے وسائل کا استعمال بھی صحیح ہو گا اور مسائل بھی بطریق احسن حل ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments