قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 8 ) آٹھویں قسط۔


داستان گو: ظفر معین بلے جعفری

حضرت کلیم عثمانی کے ملی نغمے پر شرکائے قافلہ پڑاؤ نے بھرپور انداز میں داد دی۔ کلیم عثمانی صاحب نے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کریم قافلہ سالار سید فخرالدین بلے صاحب کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور پروردگار عالم قافلے کا سفر جاری رکھے۔ آمین۔ ہم سب آج یہاں بلے ہاؤس میں یکجا ہوئے ہیں اور اکٹھا کر بٹھانے کا اہتمام فخرالدین بلے صاحب نے قافلہ کے زیراہتمام کیا۔ آج ہم سب اپنے اندر وہی جذبہ، جوش اور ولولہ کر رہے ہیں کہ جو قیام پاکستان کے وقت تھا اور جو انیس سو پینسٹھ کی مسلط کردہ جنگ کے وقت دیکھنے میں آیا تھا۔

ہم سب کے قابل احترام جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ میں نے متعدد مشاعرے پڑھے ہیں اور بہت سی تقریبات میں شرکت کی ہے لیکن میں نے قاسمی صاحب کو کبھی اس قدر پر جوش نہیں دیکھا لیکن آج تو اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے میری ہی کیا ہم میں سے اکثر کی نظریں قاسمی صاحب پر مرکوز ہیں۔ اس کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی مخصوص اور حسین مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا کہ

”آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر“
ان کے اس معنی خیز جواب پر بھی شرکائے قافلہ پڑاؤ نے اپنا بھرپور مثبت ردعمل ظاہر کیا۔

اور پھر فوراً ہی احمد ندیم قاسمی صاحب نے علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کو متوجہ فرمایا اور ان سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہوئے کہ میں کسی ادبی رسالے میں اشتہار دیکھا ہے کہ ڈاکٹر فوق کریمی علیگ اور طفیل ہوشیار پوری صاحب اور آپ دونوں بھی مل کر سید فخرالدین بلے شخصیت، فن اور خدمات کے حوالے سے کسی تالیف کا اہتمام فرما رہے ہیں۔ یہ ایک احسن اقدام ہے میں آپ سب کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں آپ کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتا ہوں مجھے مطلع ضرور فرمائیے گا کہ میں کیا خدمت سرانجام دے سکتا ہوں۔

قاسمی صاحب کے بیان پر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی حیرت دیدنی تھی اور سب نے ہی اس انکشاف اور قاسمی صاحب کے تعاون کی یقین دہانی کو بے حد سراہا۔ اس سے قبل کہ ڈاکٹر اجمل نیازی بحیثیت نظامت کار قافلہ پڑاؤ کی کارروائی کو آگے بڑھاتے کچھ فرماتے برادر محترم قبلہ خالد احمد کے گنگنانے کی آواز سنائی دی تو قاسمی صاحب نے فرمایا کہ خالد احمد صاحب کیا آپ کو طفیل ہوشیار پوری صاحب کا یہ نغمہ یاد ہے تو عطا فرمائیے خالد احمد صاحب نے فرمایا جی بالکل اور یوں انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں یہ ملی نغمہ پیش فرمایا

اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
سر رکھ کے ہتھیلی پر جانا
ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا
ایمان کا ہے تو متوالا
اسلام کا ہے تو رکھوالا
ایمان ہے تیرا سرمایہ
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
باطل کی نظر للچائی ہے
انسان پہ تنگ خدائی ہے
سر کفر نے دیکھ ابھارا ہے
اسلام کو پھر للکارا ہے
تقدیر نے یہ دن دکھلایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
تو ہاتھ مین اب تلوار اٹھا
رکھ سر پہ کفن میدان میں آ
تقدیر تیری تدبیر تیری
سب دنیا ہے جاگیر تیری
تاریخ نے ہے یہ بتلایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
جاں جاتی ہے بے شک جائے
پرچم نہ ترا جھکنے پائے
غازی کو موت سے کیا ڈر ہے
جان دینا جہاد اکبر
قرآن میں ہے یہ فرمایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
محبوب خداﷺ کے پروانے
دہرا اے اجداد کے افسانے
پیغام اخوت دینا ہے
یہ کام تجھ ہی سے لینا ہے
پھر کفر مقابل ہے آیا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر اللہ اکبر
(شاعر : طفیل ہوشیار پوری)

جیسے ہی قبلہ خالد احمد صاحب نے یہ ملی نغمہ ختم کیا تو علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے قاسمی صاحب اور دیگر شرکائے قافلہ پڑاؤ کو متوجہ فرما کر کہا کہ فخرالدین بلے علیگ پچاس کی دہائی کے اواخر میں وحدت کالونی میں رہائش پذیر تھے اور بلے میاں کے والد گرامی میر غلام معین الدین جعفری الچشتی (اللہ ان کو غریق رحمت کرے ) حیات تھے۔ ان کا جناب جوش ملیح آبادی اور سید ہاشم رضا زیدی (سیٹلمینٹ کمشنر) سے بہت پرانا دوستانہ اور یارانہ تھا۔

زیدی صاحب کی خواہش تھی کہ میر صاحب جائیداد کے کلیم کے فارم پر دستخط فرما دیں لیکن میر صاحب غلام معین الدین جعفری الچشتی اس بات کے لیے ہرگز تیار نہ ہوئے تو مجبور ہو کر انہوں نے جوش صاحب کو ساتھ لے جاکر معاملہ سلجھانے اور ڈلوانے کی کوشش کی لیکن سید غلام معین الدین جعفری صاحب کا سوال یہ ہوتا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی، ہماری اور ہم سب کی وہاں سے یہاں منتقلی ہجرت تھی؟ تو ہر کسی کا جواب ہوتا تھا کہ جی بالکل، بے شک یہ جواب سن کر قبلہ غلام معین الدین چشتی صاحب استفسار فرماتے تھے کہ کیا ہجرت کا کوئی معاوضہ بھی ہوتا ہے؟

اور واقعی انہوں نے جائیداد کا کلیم داخل نہیں کروایا حتی کہ ان کے جوش صاحب سے تو نہیں البتہ زیدی صاحب سے اس بنا پر تعلقات بھی کچھ کشیدہ رہے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ ان کا جب بھی لاہور آنا ہوتا تو ان کا قیام فخرالدین بلے صاحب کے ہاں ہی ہوتا تھا۔ اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے خود زیدی صاحب سے یہ تمام ماجرا سن رکھا ہے۔ اور فخرالدین بلے صاحب کی وحدت کالونی والی رہائش گاہ پر میرا، محمد طفیل (نقوش والے ) ، طفیل ہوشیار پوری صاحب، وقار انبالوی، ناصر کاظمی صاحب، انتظار حسین، انیس ناگی، اسرار زیدی صاحب کا بہت جانا آنا رہا ہے۔ آنس معین کی ولادت پر بھی ساٹھ یا اکسٹھ میں ہم سب جمع ہوئے تھے اور پینسٹھ کی جنگ سے پہلے فخرالدین بلے صاحب کے والد گرامی کا انتقال کا بھی تمام منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔

مہینے میں دو ایک مرتبہ تو ہم لازمی طور پر وحدت کالونی میں فخرالدین بلے صاحب کے ہاں یا پھر محمد طفیل (نقوش والے ) کے ہاں مل بیٹھا کرتے تھے۔ جاوید طفیل ہم میں سے کسی بھی گود میں آ بیٹھا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments