ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب: یورپ کا عروج


کتاب یورپ کا عروج ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کی ہفتم اشاعت 2017 میں تاریخ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی ایک محقق اور تاریخ نویس ہیں جنہوں نے تاریخ کے مختلف موضوعات پہ متعدد کتابیں لکھی ہیں۔

یورپ کی ترقی اور اس کے عروج میں ایک مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس کے پاس ایک تو ان تمام تہذیبوں کا علمی و ادبی اور ثقافتی سرمایہ ہے کہ جو اس سے پہلے ابھریں اور زوال پذیر ہو گئیں۔ اس علمی سرمایہ میں خود اس کا اپنا حصہ بھی ہے۔ لہذا اس وقت اس کے پاس جو ذہنی و علمی فکر ہے وہ اس کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی نے پہلے باب میں یورپ کی ترقی اور عروج پر روشنی ڈالی ہے۔ جس میں مختلف مورخین کے نقطۂ ہائے نظر کو مدنظر رکھ کر ان پر مختلف دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں کچھ مورخین کا خیال تھا کہ یورپ کی ترقی کی وجہ اس کی آب و ہوا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ڈیوڈ ایس لانڈس کی کتاب ”قوموں کی دولت اور غربت“ کے حوالہ جات دیے ہیں۔ جس میں مصنف یورپ کی ترقی اور عروج کو یورپی مرکزیت سے جوڑ کر یہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ نسلی اور اخلاقی طور پر اہل یورپ دوسری اقوام سے برتر ہیں اور یورپ کے لوگ تخلیقی اور فکری اعتبار سے دیگر قوموں سے آگے ہیں کیونکہ انہوں نے دوسروں سے کچھ نہیں سیکھا ہے اور جو کچھ ترقی کی ہے وہ ان کی اپنی محنت کا ثمرہ ہے۔

لیکن ڈاکٹر مبارک علی ان دلائل سے متفق نہیں ہے اور وہ اختلاف کر کے اس کے جواب میں یہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ یورپ کی ترقی اور عروج اس کی آب و ہوا اور دیگر قوموں سے زیادہ تخلیقی اور فکری صلاحیتوں کی وجہ نہیں ہے بلکہ یورپ کی ترقی اور عروج میں سب سے اہم عوامل دنیا کے دیگر خطوں میں تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے انہوں نے ترقی کی اور یورپی تاجر مختلف قوموں کے تہذیب سے آشنا ہو گئے۔

یورپ کی ترقی اور عروج کے حوالے سے ڈاکٹر مبارک علی دوسرا حوالہ فرنانڈ بروڈل کا دیتا ہے۔ جو یورپی تاریخ میں دو اہم عناصر کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ یورپ کے ملکوں نے اختلافات کے باوجود اپنی وحدت کو قائم رکھا۔ اگر چہ ہر ملک کی اپنی شناخت رہی اور اپنی زبان اور کلچر کو اہمیت دی مگر اس تنوع کے باوجود یورپ نے بحیثیت مجموعی آرٹ، موسیقی، تعمیر، رقص، ادب اور فلسفہ میں مل کر ترقی کی۔ اگر ایک ملک ترقی کرتا تو اس ترقی کے اثرات دوسروں ملک پر پڑتے اور وہ بھی فوراً اسے قبول کرلیتے تھے۔

دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ یورپ میں فرد کی آزادی کی اہمیت رہی ہے۔ یورپ کی تاریخ میں آزادی کے عنصر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے مطلق العنان بادشاہتیں ہوں، چرچ کا تسلط ہو، یا جاگیردار کا جبر، لوگ اپنی آزادی کے لئے ان طاقتوں سے برسر پیکار رہے۔ اس کی مثال کسانوں کی بغاوتیں ہیں۔ شکست کے باوجود کسان ہر عہد اور ہر دور میں بغاوت کر کے اپنی آزادی اور حقوق کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ اس کامیابی کا سب سے اہم واقعہ فرانسیسی انقلاب کے دوران ”حقوق انسانی اعلامیہ“ ہے کہ جس میں فرد کی آزادی اور قانون کے سامنے سب کی برابری تسلیم کیا ہے۔

تیسری اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مشرق میں جتنے بھی قانون آئے وہ الٰہی تھے اور معاشروں کو مذہبی قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا۔ جبکہ یورپ میں انسانی قوانین تھے۔ چونکہ مذہبی قوانین تبدیل ہونے والے نہیں ہوتے اس لئے معاشرے ان کے تحت ایک جگہ ٹھر گئے۔ جبکہ انسانی قوانین مقدس نہیں ہوتے ہیں اور انہیں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لہذا مغرب میں تغیر و تبدل ہوتا رہا اور معاشرہ متحرک رہا۔

اس کتاب میں یورپ کی ترقی اور عروج بارے میں ایک اور نقطۂ نظر جے۔ ایم بلاٹ کا ہے۔ بلاٹ سال 1492 کو یورپ کی تاریخ کا ایک اہم سال قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس سال فیوڈل ازم یعنی جاگیرداری زوال کی طرف جبکہ سرمایہ داری نظام ابھر رہا تھا۔ سال 1492 کو یورپ کی تاریخ میں اس لئے بھی اہم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس سال امریکہ یا نئی دنیا کی دریافت ہوئی ہے، اس نئی دنیا کی دریافت نے یورپ کو سرمایہ اور طاقت دی۔

جس کی مدد سے وہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے اور جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں سب سے پہلے یورپ میں کیوں آئی؟ اس سوال کے جواب میں بلاٹ کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام باقی دنیا میں بھی وقت کے ساتھ آجاتی لیکن نو آبادیاتی نظام کی وجہ سے یہ یورپ میں پہلے آ گئی۔ جے۔ ایم بلاٹ کہتا ہے امریکہ یا نئی دنیا کی دریافت کے بعد یورپ کے معیشت پر ایک زبردست اثر پڑی جس سے انہوں نے موثر ہتھیار بنائے اور اس دریافت سے سونے اور دیگر دولت اکٹھا کیا جس سے انہوں نے ہر پیشے اور شعبے میں ترقی کی۔ بلاٹ ”یورپی مرکزیت“ نظریے کا نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یورپ کی ترقی میں اہم کردار آب و ہوا نہیں بلکہ اس کی ترقی کی ایک اہم وجہ امریکی ذرائع اور ان کا استعمال ہے۔

اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی نے مزید کچھ مختلف مورخین کے نظریات کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ”فرانک“ اور ڈونالڈ ایف لاش کا بھی ذکر ہے۔ ڈونالڈ ایف لاش اپنی کتاب ”یورپ کو بنانے والا ایشیاء Asia in the making of Europe“ میں مغرب کے عروج کا قصہ بتاتے ہیں کہ مشرق کے کلچر اور اس کی اہمیت کو چھپا دیا جاتا ہے اور مشرق کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پسماندہ تھا انتہائی غلط خیال ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ جب مغرب سے سیاح اور تاجر مشرق جا رہے تھے مشرق سے کوئی مغرب نہیں آ رہا تھا۔ کیونکہ اسے مغرب کی ضرورت نہیں تھی جبکہ مغرب کو مشرق کی ضرورت تھی۔ ڈونالڈ ایف لاش اس بات کو اہمیت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یورپ کو سرمایہ دار بننے میں امریکی دریافت سے زیادہ مشرق سے مسالوں کی تجارت ہے جس نے یورپ کو آگے بڑھنے کا جذبہ دیا۔

اس کتاب کے دوسرے باب میں ڈاکٹر مبارک علی عیسائیت اور یورپی معاشرے پر دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومی سلطنت سے پہلے لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل تھی، جبر کا قانون نہیں تھا بلکہ انسانی آزادی کا قانون تھا کوئی چاہتا تو مذہب کو اختیار کر لیتا کوئی چاہتا تو انحراف کر لیتا تھا۔ عقیدے کے حوالے سے کوئی سختی نہیں تھی فرد آزاد تھا۔ رومی سلطنت میں اور اس کے کچھ بعد اصلی عیسائیت مسخ ہو کر رہ گئی جبکہ چرچ اور حکمرانوں نے مل کر سیاسی امور سنبھالے اور چرچ کو حکومت کے کچھ فرائض بھی سر انجام دیے۔

اس سے ایک طرف چرچ مزید طاقتور ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف حکمران اپنے رعب جمانے لگا اور رعایا میں بادشاہ کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا اور یہ سب کچھ چرچ اور حکمرانوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہوا۔ اس گٹھ جوڑ نے عوام کو خوف زدہ کر کے زبردستی عیسائی بنانے پر مجبور کر دیے اور یوں ظلم و ستم اور جبر سے لوگوں پر عقائد مسلط کرتے اور انہیں اس بات کی کوئی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ چرچ کو یا پھر حکمرانوں کے اختیارات کو چیلنج کرسکے اور ایسے حالات میں جو لوگ سوال کرتے تھے انہیں زد و کوب کیے جاتے تھے اور ان کے لئے سزائیں تجویز کی جاتی تھی۔

مگر سوالات پھر بھی اٹھتے تھے اور لوگ چرچ اور حکمرانوں کے ظلم اور جبر کے سامنے خاموش نہیں رہتے انہی حالات میں اس ظلم کے خلاف کچھ تحریکیں اٹھیں مثلا ریناساں، ریفارمیشں اور اس طرح کسانوں کی دیگر کئی تحریکیں اس تسلط کے خلاف اٹھی جنہوں نے چرچ اور حکمرانوں کے اختیارات چیلنج کیے اور انہیں اپنے فیصلوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کیے۔ ان تحریکوں نے یورپ کی ترقی اور عروج میں ایک اہم کردار ادا کیا گیا ہے۔ ان تحریکوں کی وجہ سے عوام سیاسی طور پر منظم ہوئی اور اپنی آزادی کو ہر قیمت پر حاصل کیا۔ شاید یہی وجوہات تھی جس کی وجہ سے یورپ ترقی کر گیا اور آج موجودہ حالات میں ہر طرف یورپ کی ترقی اور کامیابی کے چرچے ہیں۔

یورپ کی تاریخ پر اگر چہ متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہے مگر اس خطے کے لوگوں کے لئے ڈاکٹر مبارک علی کی بہت خدمات ہیں انہوں نے تاریخ اور تاریخ کے متعدد موضوعات کو عوام کے لئے انتہائی سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیفات سے ہر شخص کو مستفید ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments