پاک افغان میچ اور نمک مرچی کے تذکرے


آج ایشیا کپ کا فائنل بس شروع ہونا چاہتا ہے پاکستان سری لنکا سے ٹاس جیت چکا ہے اور پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوپر فور کا مرحلہ جذبات سے بھرپور گزر چکا ہے۔ خصوصاً پاک افغان میچ کا ٹاکرا ناخوش گواری پر اختتام کو پہنچا جو کہ قطعاً ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا اور کھیل کے حدود و قیود کے مطابق آئی سی سی کے میچ ریفری نے دونوں کھلاڑیوں پر میچ کا پچیس فی صد جرمانہ عائد کیا اور دونوں کھلاڑیوں نے میچ ریفری کے سامنے اپنے اپنے جرموں کا اعتراف بھی کیا اور معافی بھی مانگی۔

سٹیڈیم میں افغان تماشائیوں نے پاکستانی تماشائیوں پر کرسیاں ماریں اور زد و کوب بھی کیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

لیکن اس کے بعد جو سوشل میڈیا پر ہم نے جس بھونڈے انداز میں نمک مرچی کا غیر ذمہ دارانہ ٹرینڈ چلایا وہ بھی کسی حوالے سے سراہنے کے قابل نہیں۔

سینئر کھلاڑیوں جن میں جاوید میاں داد، شعیب اختر اور پی سی بی کے چیئرمین رمیض راجہ سر فہرست ہیں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ اور سپورٹ مین سپرٹ سے عاری تھا۔

شعیب اختر نے تو آخر میں پٹھان کو پٹھان کے سامنے لا کر کھڑا کیا جو کسی بھی سٹار کا شائستہ اور مہذب لب و لہجہ نہیں تھا۔ جاوید میاں داد نے تو عام آدمی کی طرح کرکٹ سیکھانے کے طعنے دیے جو ان کو قطعاً زیب نہیں دیتا۔ رہے ہمارے پی سی بی کے چئیر میں وہ تو سب پر بازی لی گئے اور آنے والے آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں وارم اپ میچ میں افغانستان کے ساتھ نہ کھیلنے کی درخواست کی۔

ہم نے سوشل میڈیا پر افغانیوں کو نمک حرام ہونے کا طعنہ دے کر ان کو آئینہ دکھانے کی کوشش تو کی پر خود آئینہ دیکھنا گوارا نہیں کیا۔

گزشتہ چالیس پینتالیس سالوں سے افغانستان اور افغانی عدم استحکام کے شکار ہیں اور اس عدم استحکام کے ذمہ دار ان کے اس طرز اور ہمارے اس طرز کے اسلاف ذمہ دار ہیں۔ عام پاکستانی اور عام افغانی کو کیا ملا اور کتنے نمک حرامی اور کتنے نمک حلالی میں مصروف عمل رہے۔

اب بھی عام افغانی کس طرح زندگی گزارتا ہے جو یو این ایچ سی آر پاکستان اور یو این کے ٹرائی پارٹیز ایگریمنٹ کے زیر سایہ پروف آف رجسٹریشن کے ہر تین سالہ معاہدے کے تحت کچی آبادیوں میں بدتر زندگیاں گزارتے ہیں لیکن اس کے فنڈ پر ہمارے ہی لوگ پوش علاقوں کے لگژری آفس، لگژری گاڑیوں اور فنڈڈ این جی اوز کے سہارے پل پوس رہے ہیں۔

سرد جنگ کے دوران جتنا بھی مال پانی آتا رہا وہ عام افغانی اور عام پاکستانی کے بجائے خواص کے تجوریوں میں گیا اور وہ لوگ جو کبھی سواری خر کے متحمل نہ تھے بڑے بڑے لینڈ کروزر اور میٹسوبیشی کے آرام دہ گاڑیوں کے آغوش میں بلا شرکت غیرے سواری کے مزے لوٹتے رہے۔

افغان مجاہدین یا مہاجرین کے نام آئے ہوئے سعودی عرب سے قربانی کا گوشت بھی خواص کے فریجز، اور ڈیپ فریزرز کی زینت بنتے ہوئے سیخ کباب اور شباب کے ٹھنڈا گرم تفریحات اور رنگ رلیوں کے مزے اپنے آن اور شان کے ساتھ اس طرح مناتے کہ عام پاکستانی اور عام افغانی کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے پاتی۔

وہ وہاں شور شرابے کے مجاہد کہلائے اور ہم یہاں خاموشی سے مجاہد کی چوکی پر براجمان ہوئے۔

عام پاکستانی اور عام افغانی کی زیست اور روزگار میں بس اتنا فرق ہے کہ جتنا ایلیٹ افغانی اور ایلیٹ پاکستانی کی زیست اور روزگار میں فرق ہے۔

پاکستان میں اب بھی ہزاروں افغان مہاجرین آباد ہیں اور بیرون افغانیوں کو ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے اس غیر ذمہ دارانہ اعمال سے ان کو پاکستان میں کیا مسائل پیش ہوسکتے ہیں۔

خدارا کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے جذبات کو قابو میں رکھا جائے کچھ لوگوں کے حرکات و سکنات کو مجموعی قوم کے اعمال کے ترازو میں نہ تولا جائے۔

افغانی پاکستان کے دشمن نہیں اگر دشمن ہوتے تو ہم دفاعی اور حربی آلات پر ابدالی، غزنوی اور غوری نام نہ رکھتے اس سے زیادہ نمک اور مرچی کے چٹخارے دار تذکرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ دونوں افغان کرکٹ ٹیم کے کوچز پاکستانی پٹھان ہیں شعیب اختر نے آدھی بات کی ہے ان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments