سندھ میں 50 لاکھ گھر تباہ اور خیمہ بستیوں کے بچے


ہمارے ملک کے حکمرانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی آفت اور مشکل کی گھڑی سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بجائے بیرونی امداد پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ موجودہ سیلابی صورتحال پر بھی یہی تماشے کیے جا رہے ہیں اور عوام کو تماشبین بنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اس وقت پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور حکومت پاکستان یو این او کے نمائندے سے بھاری امداد کی آس لگائے بیٹھی ہے، قبل ازیں سیلاب زدگان کو رلیف دینے کے لیے عالمی اداروں اور بیرونی ممالک نے پاکستان کی حکومت کو اربوں ڈالر کی مدد کی ہے، لیکن سیلاب متاثرین آج بھی مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔

سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے شاید بھاری امداد کا اعلان بھی کیا جائے، لیکن ناقص پالیسیوں اور اقربا پروری کے اس بازار میں عوام کو کسی طرح مستفید ہونے نہیں دیا جائے گا اور امداد کی بندر بانٹ حکومتی محلات کی چار دیواری میں ہی ہو جائے گی اور پھر بھوک و افلاس کی ماری ہوئی عوام کے زخموں پر نمک چھڑک کر سیاسی وڈیرے اپنی اوطاقوں پر ہی راشن اور دیگر سامان کی تقسیم کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ بیرونی ممالک کی جانب سے خیموں کی بڑی تعداد حکومت وقت کے سپرد کردی گئی، لیکن بچے آج بھی کھلے آسمان تلے اپنی ماں کی گود میں بلبلا رہے ہیں، جبکہ راشن کے بیگ بھی حقیقی متاثرین کے بجائے سیاسی آشیرواد کے حامل افراد کو دیے جا رہے ہیں، جس کے باعث آن بھی متاثرین کے خالی برتن کھانا پکانے کے بچائے بچوں کے کھیلنے کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔

بھوک وہ افلاس کیا ہوتی ہے؟ اس کا ادراک محلات میں پلے بڑے اور وراثت میں ملنے والی سیاسی گدی کے حامل منتخب نمائندگان کو کیا ہو گا۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور صوبہ سندھ میں جو سیلاب اور بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے اس کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن اس بات کی بازگشت زبان زد عام ہے کہ بیرونی امداد سے جاگیر داروں اور سرمایہ دارانہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں کے سیاسی چولھے ہی جلتے رہے ہیں۔ سندھ میں سیلاب کے باعث 1 کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن کی رہائش کا بندوبست خیمہ بستیوں، اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارت میں کیا گیا ہے، جہاں پر خواتین، بچوں اور دیگر سیلاب متاثرین کو ایک دن کی بھوک مٹانے کے لیے محض مٹھی بھر خوراک ہی دی جاتی ہے، حالانکہ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔

سندھ کے دریاء، کینالوں اور برانچز کی پشتیں، اولیاء کرام کی درگاہیں اور سرکاری عمارات متاثرین کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ سندھ حکومت کے پاس قدرتی آفت سے نمٹنے اور متاثرین کو رلیف دینے کے لیے کسی قسم کا کوئی پلان نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے، کیونکہ 2010 ء کے سیلاب میں بھی متاثرین کو چھت بھی میسر نہیں تھی اور نہ صحن، بس میسر ہے تو صرف اور صرف مشکلات اور تکالیف۔ صوبہ سندھ قدرتی اور دیگر وسائل سے وفاق کو بھاری ریونیو کما کر دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود سندھ کے عوام آج بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث گھر سے محروم ہیں، بھوک و افلاس ان مقدر بن چکی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ 15 برس سے مسلسل صوبے میں صاحب اقتدار ہے، لیکن مذکورہ جماعت کے رہنماء اس وقت سیلاب کی صورتحال پر شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ سیلاب کے پانی سے گھرا ہوا ضلع دادو کا شہر جوہی ہو یا پھر میہڑ، مذکورہ شہروں کو سیلاب سے بچانے کے لیے شہری ہی صف اول کا کردار ادا کرتے ہوئے بچاؤ بند پر مورچہ قائم کیے ہوئے ہیں، لیکن منتخب نمائندگان نے ایک بار بھی رنگ بند پر کام کرنے والے شہریوں سے حال پوچھنے کے لیے سرزمین پر نہیں آئے۔

بارشوں کی تباہی کے بعد سیلابی ریلوں نے صوبہ سندھ کے بیشتر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں تباہی مچا دی ہے، حد نگاہ ختم ہو جاتی ہے، لیکن سیلابی ریلوں سے آنے والے پانی کی حدود ختم ہی نہیں ہوتی۔ سیلاب کے باعث نظام زندگی مفلوج ہونے کے ساتھ معیشت کا پہیہ بھی رک گیا ہے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق 48,1750 گھر مکمل طور پر مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں، جبکہ 1 لاکھ 37 ہزار 77 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ضلع میرپور خاص کے چھوٹے و بڑے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں 1 لاکھ 50 ہزار 518 گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں، دوسرے نمبر پر متاثر ہونے والا ضلع لاڑکانہ ہے جہاں پر 1 لاکھ 44 ہزار 470 گھر سیلاب کی وجہ سے مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں، جبکہ تیسرے نمبر پر ضلع قمبر شہداد کوٹ ہے جہاں پر 1 لاکھ 27 ہزار 292 گھر متاثر ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق ضلع خیرپور میرس میں 85 ہزار 385 ہزار، نوشہرو فیروز میں 79 ہزار 863، عمرکوٹ میں 64 ہزار 80 گھر سیلاب کے باعث تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد، دادو، کشمور، جیکب آباد سمیت صوبے کے تمام تر اضلاع میں بھی لاکھوں گھر سیلاب کی نظر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ کے قریب گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ صوبہ سندھ میں سیلاب کے باعث جانوروں کی اموات اور ان کے مردہ ڈھانچے۔

پانی میں رہنے کے باعث کانگو وائرس پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ درجن سے زائد اضلاع میں 2 ہزار سے زائد جانور موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سیلاب کے باعث صوبہ سندھ میں 23120 جانور مر چکے ہیں ’سب سے زیادہ نوشہرو فیروز ڈسٹرکٹ میں 2773 جانور موت کا شکار ہوئے ہیں، اسی طرح خیرپور میرس میں 2626، شہید بے نظیر آباد میں 2618، میرپور خاص میں 2534، عمرکوٹ میں 2484، جامشورو میں 1600، قمبر میں 1451، سانگھڑ میں 1200، مٹیاری میں 1020، حیدرآباد میں 249 جانور موت کا شکار ہوئے ہیں۔ صوبے کے دیگر اضلاع تھرپارکر، جیکب آباد، گھوٹکی، بدین، سجاول، ٹنڈو الہ یار، دادو اور دیگر میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments