اہرام آرزو میری نظر میں


 

ادب کی دنیا کا ایک روشن اور متحرک ستارہ جو اپنی پوری آب و تاب سے چمک کر دوسروں کو منور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ میرے نزدیک آج کا چمکتا دمکتا ستارا آصف عمران صاحب ہیں۔ جو اپنی قلم کے ذریعے اس آبیاری کے فریضہ کو ہمہ وقت پورا کرنے میں مگن اور عصر حاضر کی ضرورت بھی ہے۔ ان کی کتاب ”اہرام آرزو“ جب میرے ہاتھوں میں جو بدست آصف عمران صاحب 23 مئی 2022 کو پہنچی۔ اس کا مطالعہ آہستہ آہستہ شروع کیا تو جیسے جیسے صفحہ بائیں سے دائیں کرتا گیا ایک سے بڑھ کر ایک موضوع اور عصر حاضر کی ضرورت، تاریخ اور سماج کی کڑی، گلدستہ حیات، منظر نامہ کی ابھرتی ہوئی شکل، محسوسات کا ذخیرہ اور زندگی کی فکر آمیزی کا آئینہ ثابت ہوئی۔ یہ بات تو بجا ہے زندگی میں صاحب گفتار کی نسبت، صاحب یقین زیادہ قدر رکھتا ہے۔

اس لیے میرے نزدیک ”اہرام آرزو“ میں آصف عمران صاحب کا قلم ”صاحب گفتار“ کی نسبت ”صاحب یقین“ کا منظر ابھرتے سورج کی مثال ہے۔ ان کا ”صاحب یقین“ ہونا ان کے اسلوبیاتی رنگ، جذبات، کائنات، انسانی زندگی کا اسرار اور مستقبل کی انفرادیت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا افسانوی مجموعہ ”اہرام آرزو“ اس طویل ریاضت کا ثمر ہے جو ”صاحب یقین“ کی بنیاد پر قائم ہے۔

”اہرام آرزو“ کے موضوعات کی بڑی چمک جو داخلی اعتبار سے موضوع کی اہمیت اور قاری کو اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کے قلم کا ”با اعتبار“ اور صاحب ”ذوق و یقین“ ہونا کافی ہے۔

”اہرام آرزو“ کے پہلے عنوان پر غور طلب کیا جائے تو اس کا ثمر آپ کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ افسانہ با عنوان ”بند مٹھی میں خواب“ کا ہی مطالعہ کر لیں تو ”صاحب یقین“ کا عکس واضح ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

”میں جانتا ہوں کے مجھے خواب دیکھنے کی اجازت ہے لیکن ان کی تکمیل کی سرحدوں میں داخل ہونا دوسری بات ہے۔ کیا تم نے بھی کبھی کوئی خواب دیکھا ہے ہاں میں خوابوں میں سوتا ہوں اور خوابوں میں جاگتا ہوں۔ میں نے اپنی ہتھیلی پر اپنے خواب کھود رکھے ہیں میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور ایک نئے خواب نے مجھے میں آنکھ کھولی۔“

اس اسلوبیاتی اور فکری مواد پر ایک سرسری نظر کریں تو آصف عمران کا قلم ”صاحب گفتار“ کی بجائے ”صاحب یقین“ کا لبادہ غالب کیے متحرک نظر آتا ہے۔ جو ان کی تحریر اور خیال کو مزید نتیجہ خیز اور وقت کی ضرورت قرار دیتا ہے۔

اس کا مزید ثبوت ان کی اس کتاب میں موجود عنوان ”اداس آدمی کی کہانی“ سے دیکھ لیں۔ جو ایک آواز کی لہر، ترچھی لکیروں کی ساخت اور ابھرتے ہوئے نقوش سے اپنے منہ کے دروازے کو کھول کر صاحب یقین اور کامل شخصیت کا عمدہ خیال پیش کرتا ہے۔ وہ رقمطراز کرتے ہیں :

”نام میں کیا رکھا ہے۔ ؟ میں شاعر ہوں، مصور ہوں، دانشور ہوں۔ میری شاعری، میری تصویریں، میرے دکھ اور میرے جذبات میں ایک حساس فرد ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا مشاہدہ کرتا ہوں پھول کی پتی کے ٹوٹنے پر دکھ سے چیختا بھی ہوں۔“

جب یہ فنکار اپنی بات پوری کر چکا تو اس کا اگلا ردعمل دیکھئے جو دیکھنے کے قابل ہے تو اس کو ”صاحب یقین“ اور اعتماد کی لہر سے ہمکنار کرتا ہے۔ مصنف کا یہ انداز ملاحظہ فرمائیں :

” جب تمہارے اندر کا سویا ہوا فنکار جاگ اٹھے گا تو تم بھی دوسرے آدمی کے دکھ پر رو پڑو گے۔ تمہارے دل میں نیا احساس جنم لے گا تم نئے خواب اور نئی رویا دیکھو گے۔ اور لوگ تمہاری باتیں سنیں گے، تمہیں یاد کریں گے اس نے باتوں کی بارش میں میرے وجود کے کھیت کو خوشی کے احساس کی فصلوں سے سر سبز کر دیا اور میرا چہرہ مسکرا اٹھا۔“

اس مختصر حوالہ پر غور کریں تو پہلے کا منظر دوسرے سے متضاد حیثیت رکھتا ہے قبل منظر میں وہ احساس قابلیت اور یقین کا غلبہ نہیں لیکن ”صاحب گفتار“ سے اس کو ”صاحب یقین“ میں بدل گیا جو مصنف کا قلم مسلسل امید کا چراغ لئے ہمارے دلوں اور لبوں کے دروازے پر آتا ہے۔ اس سے اس حقیقی یقین کی کیفیت کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے متبادل سحر انگیزی کے تاثرات کو جنم دے کر مایوسی سے نکال کر اس ابدی زندگی کا پیغام ملتا ہے جو آصف عمران کا ”صاحب گفتار“ کی نسبت ”صاحب یقین“ کا ثبوت دیتا ہے۔

اس لیے موصوف کا طرز تحریر اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا قلم ہمیشہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ایک طرف کر کے ہموار اور صاف و شفافیت کا محل تعمیر کرتا جاتا ہے جو بدلتے منظر میں امید کی کرن اور بربادی کو آباد کاری میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مزید ان کے ایک موضوع پر غور کریں جو با عنوان ”سحر ہونے تک“ میں اس کی ضرورت اور تصویر کشی ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

”میں نے اس کی آنکھوں میں نمی کو محسوس کر لیا۔ پیار سے اسے اپنے بازوؤں میں لیا اور اس کے سر پر تسلی کے لفظوں کی چادر ڈال کر باہر نکل گیا۔“

مسلسل اور ایک آواز جو ”صاحب بڑے گفتار“ سے زیادہ ”صاحب یقیں“ کا پیمانہ لیے اردگرد کے مناظر کو حقیقی رنگ دینے میں مصروف ہیں۔ آصف عمران کا یہی کمال ہے کہ انہوں نے اپنے قلم کو صرف ”صاحب گفتار“ تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ ”صاحب یقین“ کا سفر کیا۔ جو ان کے اس سفر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ جو لکھتے ہیں کامل بھروسا اور یقین سے لکھتے ہیں۔ وہ دل کی بات نکال کر صفحہ قرطاس پر مجسم کر کے ہمیں ( قاری) باخبر کرتے ہیں۔

دل کا حال بیان کرتے ہیں اس کیفیت کو جو مسلسل آگے بڑھنے اور یقین کو پختہ یقین میں بدل کر ایک نئی زندگی کی بشارت دیتے ہیں۔ وہ زندگی کے سفر کو آگے لے جانے میں معاون ہوتے ہیں۔ ”اہرام آرزو“ میں درج آخری تحریر جو ”محتاج“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں یقین، بھروسا اور زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے میں مصنف کا قلم مصروف اور گردش میں ہے۔ جو انسان کو حقیقی مسرت، آگاہی اور مقصد حیات سے باخبر کرتا ہے، وہ لکھتے ہیں :

” او میرے خدا یہ کوئی ضرورت مند تھکا ماندہ مسافر ہے۔ جسے ہماری مدد کی ضرورت ہے، دانش جلدی کرو اسے اٹھاؤ اور اندر لے کر آؤ پھر دونوں بھائی اجنبی کو بازو سے پکڑ کر اندر لائے اور آتش دان کے قریب بٹھایا۔ دانش جلدی سے گرم دودھ کا گلاس لایا اور اجنبی کے ہونٹوں کو لگایا۔“

اس عمل کے بعد اس امید اور کامل یقین کا غلبہ دیکھیں جو مصنف رقمطراز کرتے ہیں جو موضوع کی چمک اور احساس کی گرج واضح کرتا ہے۔

” آؤ اب سب مل کر کرسمس کا کیک کاٹیں۔ اجنبی کے جسم میں زندگی کی حرارت پیدا ہوئی تو اس کا دل شکر گزاری کے بادلوں سے بھر گیا۔“

اس سے دیکھیں تو وہ اجنبی شعلہ دان کی طرف دیکھتا ہے اس سے وہ ایک طاقت حاصل کرتا ہے جو کمرے میں جل رہا ہوتا ہے۔ اس کے عوض اس کو تقویت، زندگی کی نئی امنگ، جوش اور ولولہ ملتا ہے جو گھٹنوں کے بل گر کر خدا کی حضور گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ جو ایک نئی زندگی کی شروعات اور ”صاحب یقین“ کی مثال ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا اس بات کا ثبوت بھی ملا کہ موصوف کا قلم ہمیشہ سے اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ جو لکھنا ہے اور لکھوں گا وہ ”صاحب گفتار“ سے زیادہ ”صاحب یقین“ ہونا چاہیے۔ تب وہ تحریر زیادہ چاشنی اور مٹھاس کا اثر پیدا کرے گی۔ اس لیے میرے نزدیک ”اہرام آرزو“ اس وقت وہ مکمل طور پر کردار ادا کر رہی ہے جو ”صاحب گفتار“ کی نسبت ”صاحب یقیں“ کی خصوصیات سے لبریز ہے۔ اس لیے میرے نزدیک ”زندہ کی زندگی میں مردے کا تصور ہو ہی نہیں سکتا“ اور ”اہرام آرزو“ اس کی ایک زندہ مثال ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments