کتے کا انسان سے گلہ


ایک کتے کا حضرت انسان سے سامنا ہوا تو کچھ افسردہ اور دل برداشتہ نظر آیا انسان نے اس سے اس کی وجہ پو چھی تو پہلے تو کہنے سے ہچکچایا مگر زیادہ اسرار پر پھٹ پڑا اور کہنے لگا آج تو جو کچھ میں کہنے والا ہوں اس پر آپ چاہے اعتبار کریں یا نہ کریں اور خواہ آپ برا ہی مانیں میں کہہ کر ہی چھوڑوں گا۔

میں کتوں کی ذات سے متعلق کچھ ایسی باتوں پر روشنی ڈالوں گا جن کی بنیاد پر بلا وجہ ہماری خودداری پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کتے بھی اس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

اگر کوئی آدمی لالچی ہو، ذلیل ہو، کمینہ ہو تو اسے کتے کا خطاب عطا کر دیا جاتا ہے۔ میری عرض ہے کہ یہ ہماری ذات کے ساتھ کچھ زیادتی ہے۔ واقعات کی بنا پر یہ خطاب بالکل بے جا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا رتبہ خدا کی تمام مخلوق میں سب سے اونچا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پس ماندہ جانوروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے۔

اب آپ دیکھئے کہ ہزاروں سال سے انسان پیار اور محبت کا سبق پڑھ رہا ہے۔ خدا تعالیٰ نے کئی مسیحا، پیغمبر اور اوتار اس پیام کی تبلیغ کے لئے بھیجے۔ لیکن آج بھی انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔ یسوع مسیح، مہاتما بدھ۔ حضرت محمدﷺ اور مہاتما گاندھی، ان سب لوگوں نے ایک ہی بات کہی لیکن اس اشرف المخلوقات کے کیا کہنے، آپ ہم کتوں کی مثال دیتے ہیں کہ کیسے ہم پھینکے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کیسے ہم دودھ وغیرہ کے لئے چوری کرتے ہیں، لیکن آپ نے اپنی طرف کبھی بھی توجہ نہیں دی۔ لڑائیاں اور جنگیں، توپوں اور بموں کے ساتھ معمولی سی باتوں پر آپ ملک کے ملک تباہ کر دیتے ہیں۔ کتا کسی دوسرے کتے کا ماس نہیں کھاتا لیکن انسان تو اپنے بھائی کا خون کر دیتا ہے۔ ہم اپنے شکار کو سوائے مکھیوں اور چوہے وغیرہ کے خود جان سے نہیں مارتے، لیکن آپ شہروں کے شہروں کا صفایا کر دیتے ہیں۔

عام طور پر آپ ایسے شخص جس کی جنسی بھوک حد سے تجاوز کر گئی ہو اس کو بھی کتا ہی بنا دیتے ہیں، واقعہ تو یہ ہے کہ۔ تمام حیوانوں اور انسانوں میں سب سے زیادہ شہوت پرست گدھا ہوتا ہے۔ لیکن نہ جانے آپ کیوں اسے صرف بے وقوفی کے کنائے کے لئے ہی موزوں سمجھتے ہیں۔

اب سنئے جنس کے بارے میں، یہ صحیح ہے کہ ہم کتوں میں کھلا میل جول ہوتا ہے۔ اور جنس کے معاملے میں کوئی مخصوص میاں بیوی نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات کی تو آپ بھی تقلید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنس کے معاملے میں مشرقی آداب و سلیقے کی بجائے مغربی فیشن (جو ہمارے زیادہ قریب ہے ) زور پکڑ رہا ہے اور جنسی آزادی کی تحریک بہت ہر دلعزیز ہو رہی ہے۔ آخر یہ بھی تو بندھن ہی ہیں۔ انسان اب دھیرے دھیرے ان بندھنوں سے آزاد ہو رہا ہے اور کتے نے اپنی دور اندیشی سے پہلے ہی اس بندھن کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔

کتوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کسی بھی کتے نے آج تک کسی غریب کتیا کی حرمت پر حملہ نہیں کیا۔ بر خلاف اس کے آپ انسانی تاریخ کے صرف پچھلے چند برسوں پر نگاہ ڈالئے۔ تقسیم ہندوستان کے واقعات لیجیے، عورتوں پر کیا کیا نہ گزری، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قانون سے مجبور ہو کر عورتوں کی عزت کرتے ہیں۔ ذرا قانون کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور آپ نے ”ذلیل کتوں“ کی پیروی شروع کر دی۔ آپ کے چال چلن کا کوئی بھی تو ایسا درخشاں پہلو نہیں جسے آپ ہمارے مقابلے میں پیش کر سکیں۔

گدھے کی طرح کام کرنا، بھیڑیے کی طرح خون کرنا، گیدڑ کی طرح بھپکیاں بتانا اور ڈرانا، لومڑی کی طرح چالاکی اور چاپلوسی سے اپنا کام چلانا، اونٹ کی طرح کینہ رکھنا، سانپ کی طرح موقع پاتے ہی ڈس لینا، بگلے کی طرح مچھلیوں کے انتظار میں بھگتی کرنا۔ دنیائے حیوانات کی تمام برائیاں جمع کر دو اور اس مجموعے کو نام دے دو انسان کا۔ بس یہی ہے نا؟ کہاں ہے شیر کی بہادری اور دلیری، کہاں ہے چکور کی لگن، کہاں ہے شاہین کی بلند پروازی اور کہاں ہے کتے کی وفاداری آپ میں؟ آپ تو اشرف المخلوقات ٹھہرے نا؟

معیار زندگی کا مقابلہ کیجئے تو شاید کئی کتے انسانوں پر بازی لے جائیں۔ آپ کو راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کے کتوں سے ملاقات کا موقع تو نہیں ملا ہو گا۔ شاید دور سے انہیں دیکھا ضرور ہو۔ میرے دو کزن (COUSIN) اور ایک ”آنٹی“ انگریزوں کے ساتھ رہے ہیں اور ایک دوست ایک مہاراجہ کے پاس اب بھی عیش کر رہا ہے۔ وہاں انہیں وہ چیزیں مہیا ہوتی ہیں کہ عام انسان زبان چٹخارتا رہ جائے۔ وہاں ایک کتے کی خدمت کے لئے کئی انسان رکھے جاتے ہیں۔ اور مہاراجہ کے کتے نے ایک بار مجھے بتایا کہ کئی بار تو اس کی خدمت پر تعینات کیے ہوئے اردلی اس کے راشن سے چیزیں چرا لیتے ہیں انسان صرف ہمارے بے زبان ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ورنہ۔

انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے مگر آپ ایسے نیچ اور گھٹیا لوگوں کو کتے سے تشبیہ دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ ارے ہمارے ساتھ کسی کو ملانا ہی ہے تو برابری کی سطح پر ملائیے یہ کیا کہ کسی بھی غیر مناسب حرکت پر کتا پکارا جائے۔ کتا ایک وفادار اور محبت کرنے والی مخلوق ہے جس تھالی میں ہم کھاتے ہیں اس میں کبھی چھید نہیں کرتے اور ایک بار جو کسی کے ہو جائیں تو جان وار دیں مگر کبھی اس سے بے وفائی نا کریں اس بات کی گواہی تو آپ انسان بھی دیتے ہیں مگر خود آپ لوگ نمک حرامی کرنے میں ذرا نہیں جھجک محسوس کرتے۔

جہاں موقع ملے بے دھڑک اپنی اوقات دکھا دیتے ہیں اور پھر آپ جیسے ہی انسان ایسے لوگوں کو ہم سے تشبیہ دے کر ہمیں بھی شرمندہ کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کی یہ دوغلی اور مطلبی فطرت تو ازل سے چلتی آ رہی ہے اور ابد تک ایسے ہی رہے گی مگر میری آپ سب سے التماس ہے کہ ہم سے نا ملایا کریں ایسے جانور نما انسانوں کو۔ ہم کتوں کی بھی عزت ہے۔ کچھ جذبات ہیں اور ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے جب گھٹیا لوگوں کو بے وجہ ہم سے ملایا جاتا ہے۔ اور ہماری ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم پر وہ الزامات لگائے جاتے ہیں جو ہم نے کبھی سرزد ہی نہیں کیے ۔ بس اپنی روزمرہ کی لڑائی جھگڑوں میں اس بات کا خیال رکھا کریں میں دل سے آپ کا مشکور رہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments