پاکستان کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ عوام الناس کی نظر میں اپنا وقار، عزت اور حیثیت کھو رہی ہیں۔ وہ اس مقام تک پچھتر سال کی ’عرق ریزی و جاں فشانی‘ سے پہنچی ہیں۔ دائیں بازو کے مذہبی سیاسی لیڈر ہوں یا بائیں بازو کے مزدور کسان، ان کی زیادتیوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ سلار عسکر کی انگلیوں کے اشارے پر کٹھ پتلیوں کی طرح سر مٹکاتے، فرمان بردار، اطاعت گزار سردار ہوں یا تماشا گروں کو تباہی و بربادی کی ڈھیری سے اٹھا کر دوبارہ جلا بخشنے والے جمہوری حکمران، سب کے ساتھ ان کا سلوک ایک جیسا ہی رہا۔ ظلم کی کال کوٹھریوں میں محصور کر دیا یا ننگا کر کے سڑکوں پر رگیدا۔

طلوع سحر میں ان کا نام جپنے والے محبان وطن، دوسرے پہر میں غداری کا تمغہ دے کر جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیے گئے۔ اپنے فدائیوں کے پیٹ پر بم باندھ کر مخالف کیمپ میں دھکا دینے کے بعد ان کے اہل خانہ کو ہی عدالتوں میں گھسیٹا اور اپنی اس کارکردگی پر تختی بھی مقتول کے نام کی ہی لگائی۔ بہن کے دور حکومت میں بھائی کو گھر کے دروازے پر موت کی بھینٹ چڑھا کر ایسی کہانیاں بناتے رہے کہ وہ بین کرنے کے لیے اس کی کھاٹ کے ساتھ اپنا سر بھی نہ پھوڑ سکی۔

اس ملک کی چاہت میں لٹنے والے مہاجر غیر ملکی شہری قرار دے کر دوبارہ برباد ہونے کے لیے دشمن ملک روانہ کر دیے گئے اور کچھ غیر ملکی قرار دیے جانے والوں کی لاشیں بھی ان کے ورثا کے حوالے نہ کی گئیں۔

ان دیوتاؤں نے ذاتی پسند یا کسی مجبوری کی وجہ سے اگر کوئی کام عوامی امنگوں کے مطابق کر بھی دیا تو یہ یاد رکھا کہیں ان کے اور عوام کے درمیان فاصلہ کم ہو کر ان کی ہیبت کا مینارہ گرا نہ دے، اگلے ہی لمحے انہیں اوقات یاد دلانے کے لیے کوئی پیارا غائب کر دیا یا جیل کی بھول بھلیوں میں پھینک دیا۔ کسی کی زبان بندی کر دی یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

عوام ان کی چاہت کے بھیگے جنگلوں میں مور بن کر ناچتے رہے اور عوامی نمائندے ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں ان کے آستانوں پر گھنگھرو پہن کر مست، رقص کناں رہے۔ دھتکارے جانے والا کافر ہاویہ نشین تو ہوتا ہی ہے، لیکن ان کی چوکھٹ پر ناصیہ فرسائی کی عزت پانے والا مومن بھی نامراد ہی لوٹا۔

اب ہر طرف لگائی ہوئی نفرت کی یہ آگ خود ان کی کچھاروں کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ عوام ان کے دھوکے میں آنے کو تیار نہیں۔ لیڈر مار کھا کھا کر پہچان گئے ہیں کہ ان کے در سے سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملے گا۔ عمران خان عوام کے دلوں میں سلگتی نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ اسے بھڑکا کر اپنا مفاد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کامیابی صرف اور صرف ان کو للکارنے میں ہے۔ خان صاحب نے ان سے ہر جائز و ناجائز کام نکلوائے پھر اپنی ناکامیاں اور بد حواسیاں ان کے سر تھوپ دیں اور جاتے جاتے دشنام طرازی کر کے پھر ہیرو بن گئے۔

ہر نیا آنے والا بھی یہی کرے گا۔ اب ان دیوتاؤں کی توہین دیوتاؤں کے اپنے گلے کا ہی پھندا بن چکی ہے۔ توہین کا یہ دھبہ گناہ گار کے لیے دنیا میں اور قبر میں بھی اعلیٰ مقام کا حامل ہونے کی پہچان ہے۔ اب یہ گناہ باعث عزت بن گیا ہے۔ اس پر سزا سنا دیں تو ایک اور الطاف حسین و نواز شریف بنا شہادت کے شہید کا رتبہ پا لے گا، کبھی بھی نہیں مرے گا اور اگر سزا نہ دیں تو ’مولا جٹ‘ کے سر پر انصاف کی پگ موجود رہے گی۔

نامی گرامی صادق و امین انہیں للکارتا رہے گا۔ خاں صاحب اس جرم سے بار بار کھیل رہے ہیں اور مریم نواز و نواز شریف لطف اندوز ہو کر اپنے ہتھیار تیز کر رہے ہیں۔ اس کھیل کا جو بھی نتیجہ آئے وہ اکھاڑے میں کودنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کیس ختم ہونے کے بعد ’سیسیلین مافیا‘ اور ’گاڈ فادر‘ اس ملک کے کے اصل مافیا اور باپ کا روپ دھارنے والے گاڈ کو ان کے ایوانوں اور کھچاروں میں جا کر للکاریں گے۔ مریم نواز لاہور کی عدالت عالیہ کا دروازہ پھر کھٹ کھٹا رہی ہیں۔ ایک اور گستاخی سے پناہ پانے کے لیے، پاسپورٹ کے حصول کی چھوٹی سی درخواست کا بوجھ ایک دو دیوتا اٹھانے کو تیار نہیں، اس لداؤ کو اب ان کا پورا پریوار سہارے گا۔ اس کے بعد عدالت عظمیٰ کو نواز شریف کی اپیل بھی سننی پڑی گی۔

اب دیوتاؤں کے لیے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ صرف اور صرف انصاف کے اصولوں کے مطابق فیصلے کر کے اپنے گھر کو سدھاریں۔ مزید کسی کو مائنس کرنے کی بجائے پہلے سے مائنس کیے گئے لیڈروں کی واپسی کی راہ ہموار کریں۔ انصاف کے عین مطابق ان کے کیسز سنیں۔ فلمی کہانیوں اور ناولوں کے کرداروں کا الزام لگانے کی بجائے ان کو عوامی رہنما سمجھیں۔ اس ملک کی ستلی میں مزید گرہیں لگانے کی بجائے اپنی پاکی دامن کا خیال کریں۔ یہ نہ ہو کہ کل کلاں تین میں نہ تیرہ میں، مردنگ بجاوے ڈیرہ میں

اور کوئی ان کی سننے والا ہی نہ رہے۔

اسٹیبلشمنٹ بھی سولین قیادت کی بالادستی قبول کر کے اپنا آئینی کردار نبھائے ورنہ عوام الناس سب الٹا دیں گے جو ان کے لیے اور خود عوام کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہو گا۔ عوام خراب ہوئے تو بھی نزلہ ان پر ہی گرے گا۔