طالبان حکومت کو درپیش چیلنجز


افغانستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو بیس سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں بشمول کٹھ پتلی افغان حکومت کے زیر قبضہ رہنے اور پچھلے سال اگست میں بیرونی تسلط سے آزادی کے باوجود عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے حالانکہ یہاں پر بننے والی حکومت دنیا کی تمام مروجہ تعبیرات کی روشنی میں ایک سر سبز زمین حقیقت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کو حاصل اقتدار نہ تو کسی بون کانفرنس کے ڈھکوسلے کے نتیجے میں ملا ہے اور نہ ہی ان کی یہ حکومت کسی امریکی یا کسی دوسری غیر ملکی قوت کے مرہون منت ہے بلکہ یہ تحریک طالبان کی بیس سالہ غیر متزلزل قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

طالبان حکومت کے حق میں ایک اور قابل تعریف اور بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگ نکتہ ان کا بغیر کسی خون خرابے اور جنگ و جدل کے برسراقتدار آنا ہے لہٰذا اصولاً دنیا کو نہ صرف ان کے اقتدار میں آنے کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا بلکہ افغان عوام کے وسیع تر مفاد میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کر کے بین الاقوامی برادری اگر ایک طرف افغان عوام کے مسائل میں اضافے کی باعث بن رہی ہے تو دوسری جانب اس سے طالبان جنہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد سے نہ صرف صبر و تحمل کا بھرپور عملی مظاہرہ کیا ہے بلکہ اپنے شدید ترین سیاسی مخالفین کے لیے بھی عام معافی کے اعلان کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ طالبان تمام افغان دھڑوں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں کو دیوار سے لگا کر انہیں اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے مغربی طاقتوں کی منافقت اور دو رنگی تو قابل فہم ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ طالبان جن کے بارے میں ایک تاثر یہ دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بعض علاقائی طاقتوں کے تعاون سے برسراقتدار آئے ہیں اور ان طاقتوں کی سرپرستی کے نتیجے ہی میں طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اور اس خطے میں امریکہ اور روس و چین مخاصمت کی واضح مثالوں کے علی الرغم ان قوتوں کا ایک امریکہ مخالف حکومت کو تسلیم نہ کرنا خطے کے مسائل کوایک درست سمت میں حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ اور مشکل تر بنا رہا ہے۔

اس صورتحال میں طالبان کے بعد سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا پاکستان کو ہے جس کی نہ صرف ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی سرحد افغانستان سے ملی ہوئی ہے بلکہ جسے اگر ایک طرف افغانستان کی درآمدات اور خوراک و صحت کی اکثر ضروریات کا بوجھ اپنے معاشی طور پر مضمحل کاندھوں پر اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب افغانوں کی ایک بڑی تعداد کی پاکستان میں مسلسل موجودگی بھی پاکستان کی اقتصادی اور سماجی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

لہٰذا ایسے میں پاکستان تن تنہا طالبان حکومت کو تسلیم کر کے نہ تو بین الاقوامی دباؤ کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔ یاد رہے کہ ماضی میں جب پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت اسے اس امر میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سرپرستی اور عملی تعاون بھی حاصل تھا لیکن اس دفعہ معاملہ وہ نہیں ہے جو نوے کی دہائی میں تھا اس لیے اس مرتبہ پاکستان کو ہر قدم انتہائی پھونک پھونک کر اور احتیاط سے اٹھانا پڑ رہا ہے۔

اس موقع پر طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کا یہ بیان مبنی بر حقیقت ہے کہ طالبان کی عظیم فتح ان گنت قربانیوں اور مشکلات کے بعد حاصل ہوئی ہے لیکن ملا غنی برادر کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی حکومت کو بزور طاقت گرانا تو آسان ہے لیکن حکومت حاصل کر کے اسے عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق نیز بین الاقوامی حالات کے مطابق چلانا انتہائی دل گردے کا کام ہے۔

طالبان حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کے برسراقتدار آنے کے خوف سے ایک بڑی آبادی نہ صرف امریکی چھتری تلے افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھی بلکہ بہت سارے لوگوں نے امریکی جہازوں کے ساتھ لٹک کر افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔

واضح رہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے بارے میں امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک کے 38 ملین افراد میں سے نصف کو انتہائی غربت کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی ٹرانزیکشن پر پابندی اور عالمی سطح پر طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے افغانوں کو جہاں اندرون ملک بے روزگاری اور دیگر مسائل کا سامنا ہے وہاں انہیں بین الاقوامی سفر میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔ ملک میں صحت اور تعلیم کے علاوہ رفاہ عامہ، پبلک ہیلتھ، سماجی بہبود اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہے جس کی وجہ معاشی مسائل اور ریاستی اداروں کا ایک سال گزرنے کے باوجود مکمل طور پر فعال نہ ہونا ہے۔

ان حالات میں بلا شرکت غیرے برسر اقتدار ہونے کے ناتے سب سے بھاری اور اولین ذمہ داری بھی یقیناً طالبان کی قیادت پر عائد ہوتی ہے انہیں سوچنا ہو گا کہ وہ افغان قوم کو مایوسی کی دلدل اور اس بحرانی کیفیت سے کیسے نکال سکتے ہیں اس ضمن میں انہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کی بجائے جہاں پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران کے علاوہ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہو گا وہاں افغانستان کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے اسلامی ممالک قطر، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ خطے کی دو بڑی طاقتوں چین اور روس کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments