دو شاخہ ترجیحات کی زیاں کاری


اس میں کیا شک کہ علم ایسی طاقت ہے جسے ہزاروں برس تک زنجیر بند کر کے انسانوں کے استحصال اور ناانصافی کو یقینی بنایا گیا۔ کہیں علم کے گرد اوہام، نامعلوم کے خوف اور ننگے استبداد کی دیواریں اٹھائی گئیں تو کہیں علم کے حصول پر مخصوص طبقات کا اجارہ قائم کیا گیا۔ تجسس، دریافت، ایجاد اور تخلیق کے دھارے مگر جنگلوں میں اپنی بقا کی لڑائی لڑنے والی نسل انسانی کی وجودی بنت کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی انسانی تاریخ کا اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ بازنطینی سلطنت کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کے قیام کو قرون وسطیٰ کے اختتام اور نشاة ثانیہ کی ابتدائی نشانیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بازنطینی سلطنت کے بہت سے علما اپنے فکری اثاثوں سمیت ہجرت کر کے اٹلی وغیرہ پہنچ گئے۔ ان صاحبان تفکر کے زیر اثر خوابیدہ یورپ کی تاریک غاروں میں لفظ اور خیال کی کرنیں پھیلنے لگیں۔ جوہانس گٹن برگ نامی شخص جرمنی کے اہل حرفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ 1440ءمیں اسے ایسی مشین بنانے کا خیال سوجھا جس سے تحریر تک باآسانی رسائی ممکن ہو سکے۔ بالآخر 1450 ءمیں گٹن برگ ایسا ابتدائی چھاپہ خانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا جسے تجارتی بنیاد پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ تاریخ انسانی کا رخ تبدیل کرنے والی اس ایجاد سے عمومی خواندگی کا دروازہ کھلا۔ طبقہ امرا اور مذہبی پیشواﺅں کے قبضے میں پوشیدہ علوم تک عام آدمی کو رسائی ملی۔ صنعتی انقلاب کا امکان پیدا ہوا۔ برونو اور گلیلیو جیسے اذہان نے شواہد کی بنیاد پر چرچ کے نظریات کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ سروانتے، لیونارڈو ڈونچی، مائیکل اینجلو اور شیکسپیئر جیسے دیوقامت تخلیق کاروں نے جنم لیا۔ وکٹورین ناول کی روایت ہی بتاتی ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی تھی جو کتاب پڑھ سکتے تھے۔ گٹن برگ کے چھاپہ خانے نے معیشت، سیاست اور تمدن کے خدوخال بدل دیے۔

کتاب کے سفر میں اگلی منزل اخبار تھی اور پھر بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں ریڈیو اور فلم۔ برن ہارڈ شلنک (Bernhard Schlink) کی کتاب The Reader بھلے کم لوگوں نے پڑھی ہو لیکن 2008ء میں ڈیوڈ ہیئر نے اس کتاب پر فلم بنائی جو کروڑوں افراد نے دیکھ رکھی ہے۔ شلنک نے ایک دل گداز انسانی المیے کی تصویر کشی کرتے ہوئے پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے محرومی کے باوجود علم تک رسائی کے بالواسطہ امکانات بھی بیان کئے ہیں۔ ریڈیو اور فلم سے کچھ ہی عشروں بعد ٹیلی وژن ایجاد ہو گیا جس کے لیے میکارتھی ازم سے پنجہ آزمائی کرنے والے صحافی ایڈورڈ مرو  نے کہا تھا کہ اگر ٹیلی وژن لوگوں کو باخبر رکھنے کا فرض ادا نہیں کرتا تو یہ محض ایک ڈبے میں بند تاروں اور روشنیوں کا گچھا (Wires and Lights in a Box) بن کے رہ جائے گا۔

انسانی تاریخ کے پھیلے ہوئے منظر پر ہماری نسل بھی ایک نقطہ معدوم بن کر رہ جائے گی جس کے فٹ نوٹ میں لکھا جائے گا کہ اس نسل نے ٹیلی وژن اور مانع حمل ادویات سے کمپیوٹر اور روبوٹ تک کا سفر دیکھا۔ انسان کو چاند پر قدم دھرتے دیکھا۔ فیکس مشین کی ایجاد اور پھر اس کا متروک ہونا دیکھا۔ فیس بک پر لکھے طویل پیغامات کو 140 حرفوں کے اختصار میں سمٹتے دیکھا۔ تاہم کتاب سے ٹویٹ کے سفر میں ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ رائے کا علمی تناظر نعرے کی قطعیت میں بدل گیا ہے۔ اب کسی کو متعلقہ موضوع کا پس منظر جاننے اور دلائل پر غور و فکر کی ضرورت نہیں۔ پہلے سے استوار تعصبات کی بنیاد پر گالی دی اور آگے نکل گئے۔ پوسٹ ٹروتھ کی سچائی جاننے کے لیے گلیلیو کی دوربین درکار نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سوشل میڈیا نیٹ ورک کافی ہے۔ ہم پیوٹن کی قوم پرستی اور نریندر مودی کی فرقہ پرستی کی آڑ تو مقامی حساسیت کے پیش نظر لیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے ملک میں ففتھ جنریشن وار فیئر کو الٹے پاﺅں مراجعت کرتے نہیں دیکھا۔ جنہیں کل تک سرکار دربار سے براہ راست خبر ملتی تھی، اب ان کی اپنی کوئی خبر نہیں۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا۔ رفتگاں کا نشان نہیں ملتا….

رفتگاں کا نشان کیا خاک ملے، ہمیں تو عمران خان کے ارشادات کی تھاہ نہیں ملتی۔ حضرت نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مقدمہ یہ مرتب کیا ہے کہ ان کی حکومت غیر ملکی سازش اور داخلی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں گرائی گئی۔ گویا آئین کی شق 95 حرف بے معنی ہے۔ اگر امریکی سازش کے الزام میں حقیقت ہے تو عمران خان امریکی رہنماﺅں سے رابطے میں کیوں ہیں۔ آئین میں وزیراعظم کی میعاد ایوان کے اعتماد سے مشروط ہے۔ عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے اور اپنے مخالفین کو چور اور لٹیرے قرار دے کر صاف اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ وہ یہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسہ میں البتہ کہا کہ ’نیوٹرل کچھ کر سکتے تھے اور انہوں نے نہیں کیا‘۔ نیوٹرل کی اصطلاح دستور میں نہیں ملتی البتہ میجر جنرل بابر افتخار نے فوج کو نیوٹرل قرار دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان نیوٹرلز سے کیا توقع رکھ رہے ہیں۔ جولائی 2018ء کے انتخابات میں ہم نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے درجنوں امیدواروں کو اپنی سیاسی جماعت کے ٹکٹ واپس کر کے تحریک انصاف میں شامل ہوتے دیکھا۔ آر ٹی ایس کو بند ہوتے دیکھا۔ آزاد ارکان اسمبلی کو جہاز بھر بھر کر اسلام آباد پہنچانے کا تماشا دیکھا۔ غالباً صاف اور شفاف انتخابات سے عمران خان کی یہی مراد ہے۔ یاد رہے کہ ہماری انتخابی تاریخ میں ووٹوں کی شرح اور کامیاب امیدواروں کی تعداد میں کبھی قابل فہم تعلق نہیں پایا گیا۔ نادیدہ دستکار ہر انتخاب میں مقبول جماعتوں کو کمزور رکھنے کے لیے جوڑ توڑ کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار کا غیر دستوری اور ناگزیر طور پر ناکام تصور ہے۔ عمران خان کی سیاست ایسی ہی دو شاخہ ترجیحات کی زیاں کاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments