نومبر میں کیا ہونے والا ہے؟
آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لیے قرض بحالی پروگرام فائنل ہونے کے بعد ایک طرف وسیع البنیاد حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اور دوسری طرف تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے ارمانوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے عین ایک دن پہلے سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کی پنجاب اور کے پی کے کے وزراء خزانہ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
عمران خان کئی مہینوں سے پی ڈی ایم کی حکومت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہیں۔ محاذ آرائی کی اس سنگین کیفیت کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ ڈالر ایک بار پھر قابو سے باہر ہونے لگا ہے۔ دوسری طرف مرغے کی بس ایک ٹانگ کے مترادف عمران خان کو جلد انتخابات کی پڑی ہوئی ہے۔
وہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے والوں کو بھی کافی عرصہ جلی کٹی سناتے رہے تھے۔ پہلے وہ نیوٹرلز اور ہینڈلرز کو کئی ماہ تک کوسنے دینے میں مصروف رہے۔ یعنی سازش کے ذریعے نااہلوں کو ملک پر مسلط کرنے والے میر جعفر کہلائے۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے چور ڈاکو، اشتہاری اور سزایافتہ برسراقتدار ہیں۔ یہ نالائق ہیں اور معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ ملک نہیں سنبھال سکتے۔ لہذا نئے انتخابات وقت کی ضرورت ہیں۔ خان صاحب اپنے سپورٹرز بالخصوص نوجوانوں سے اپنا ساتھ دینے کی درخواست کر رہے ہیں۔
تاکہ وہ ملک کو حقیقی آزادی دلا سکیں۔ خان صاحب موجودہ حکومت کی اہلیت پر سوالات تو اٹھا رہے ہیں۔ مگر اپنی اداؤں پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ آزاد کشمیر میں انہوں نے جس شخص کو وزیراعظم بنایا ہے۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے میرٹ کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ موصوف کو خان صاحب کی اے ٹی ایم سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے عثمان بزدار اور محمود خان کے انتخاب کے متعلق بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں نصف درجن چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل کیے۔ مگر باوجود اس کے سارا زمانہ عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کے مشورے دے رہا تھا۔ مگر خان صاحب نے کسی کی ایک نہ سنی۔ اور اپنے انتخاب کو ہمیشہ درست سمجھا۔ وفاق میں چار سالوں میں چار وزیر خزانہ بدلے مگر معیشت کا وہی برا حال جو پہلے دن سے تھا۔
اب انہوں نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ فرماتے ہیں آرمی چیف کا معاملہ نئی حکومت کے اقتدار میں آنے تک لٹکا دیا جائے۔ جب ان سے پوچھا گیا۔ نئے انتخابات معیشت کی زبوں حالی اور سیلاب کی وجہ سے جلد ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ تو فرماتے ہیں۔ سندھ میں یا جہاں سیلاب کی صورت حال ہے، الیکشن بعد میں بھی ہوسکتے ہیں۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک جنرل باجوہ کی توسیع کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے موصوف نے احتراز کیا اور فرمایا وکلاء اور آئینی ماہرین اس کا حل بتا سکتے ہیں۔
یعنی 27 نومبر جو جنرل باجوہ کی سروس کا آخری دن ہے۔ اس کے بعد انتخابات تک کیا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ اس کے بارے میں خان صاحب نے کچھ نہیں بتایا۔ البتہ فواد چوہدری نے اس وقت تک جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا عندیہ دیا ہے۔ فوج کی سینیارٹی لسٹ کے مطابق جنرل عاصم منیر سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ جو 27 نومبر کو ریٹائر ہوسکتے ہیں۔ اگر انہیں آرمی چیف کے عہدے کے لیے زیر غور نہیں لایا جاتا۔ اس کے بعد چار لیفٹیننٹ جنرل جو ایک ہی بیچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مئی 2023 کو اپنی مدت ملازمت مکمل کریں گے۔
فرض کرتے ہیں کہ عام انتخابات مئی سے پہلے ہو جاتے ہیں تو اس بیچ میں سے کسی جنرل کو فوج کا سربراہ مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ مگر ایک بات زیر غور رہنی چاہیے کہ جنرل باجوہ تکنیکی طور پر چھ ماہ تک مزید اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے۔ کہ عمران خان کی خواہش کے مطابق جنرل باجوہ نئی حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ ان کی چھ ماہ کی مدت مئی 2023 میں ختم ہوگی۔ اس صورت میں پانچوں سینئر جنرل ریٹائر ہوچکے ہوں گے۔ اس وقت جنرل عامر اور جنرل ندیم انجم بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہوں گے۔
جنرل عاصم منیر آٹھ ماہ تک ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں۔ اور چند وجوہات کی بنا پر عمران خان کی ان سے ان بن ہو گئی۔ اور انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل صاحب نے کرپشن کے بارے میں عمران خان کو ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ جو انہیں ناگوار گزری تھی۔ کیونکہ اس رپورٹ کا کھرا بنی گالہ تک جاتا تھا۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی ایک اہم اتحادی جماعت جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی مدت میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ جے یو آئی کے امیر فرماتے ہیں جو اسمبلی ایکسٹنشن کا بل پاس کر سکتی ہے اس کی اپنی مدت میں توسیع کیوں نہیں ہو سکتی۔ آئینی ماہرین کو اس بارے میں غور کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ جہاں تک عمران خان کی تجویز کا تعلق ہے وہ آئینی قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ شہباز شریف کو کیا ضرورت ہے کہ وہ آرمی چیف تعینات کرنے کے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی اپوزیشن راہنماء کے کہنے پر یہ تعیناتی مؤخر کی گئی ہو۔
خان صاحب روز کوئی نہ کوئی شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کے مطالبات کی فہرست میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن وزیراعظم اپنا فوکس سیلاب زدگان کی بحالی کے کاموں میں رکھے ہوئے ہیں۔
عمران خان نے بھی سکھر میں سیلاب سے متاثرہ چند افراد سے ملاقات کر کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوایا۔ انہوں نے ایک میز کے اردگرد چار پانچ سیلاب متاثرین کو چاول کھلا کر اپنا قومی فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔ جس کا سوشل میڈیا پر بڑا مذاق اڑایا گیا۔ موصوف کی چائے میں روٹی ڈبو کر کھانے کی وڈیو کے بھی چرچے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف خان صاحب کی کفایت شعاری اور دوسری طرف چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے تیتر اور بٹیر کا ٹینڈر آرڈر کرنا سوشل میڈیا کا مقبول موضوع بنا ہوا ہے۔
عمران خان قومی سطح کے لیڈر کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب انہیں فوت شدگان کی تعزیت کرنے اور سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کے پاس دلجوئی کے لیے جانا ہی پڑے گا۔ ورنہ لوگ انہیں توہم پرست سمجھنا شروع کر دیں گے۔ سچا اور کھرا لیڈر عام آدمی کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتا ہے۔ اور اس کو کم مائیگی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا۔ لہذا خان صاحب کو اپنے طور طریقوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
- محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یاد میں - 29/12/2023
- عورت کی برہنگی - 15/11/2023
- آرمی چیف کی تعیناتی کا ہنگامہ - 19/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).