حالیہ سیلاب، بھرپور عوامی ذمہ داری کا مظاہرہ


خراج صد تحسین اور صد آفرین پاکستانی عوام کے لئے کہ سیلاب جیسی آفت و بلا کے ان سخت حالات میں اس نے بغیر کسی مذہبی، مسلکی، لسانی، قومی و صوبائی تعصب کے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی ہر ممکن مالی و جانی امداد کی روایت کو برقرار رکھا ہے

اس بات کے باوجود کہ قیامت خیز مہنگائی نے پورے پاکستان کی عوام کو مقہور کر رکھا ہے پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح اپنی محدود بساط سے بڑھ چڑھ کر سیلاب زدگان کے لئے اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے

جیسا کہ میں اپنے گزشتہ مضمون میں بیان کر چکا ہوں کہ سیلاب زدگان کے لئے ریاستی ریلیف پالیسی تو ابھی کچھ عرصہ مزید پائپ لائن میں رہے گی تب تک تو سیلاب زدگان کے مسائل روز بروز بڑھتے جائیں گے

ایسی صورتحال میں ہماری ذمہ داریاں بھی ختم نہیں ہونگی

سیلاب کے ابتدائی دنوں میں میڈیا نے اس کی بابت انتہائی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور مکمل بلیک آوٴٹ رکھا۔ نتیجتاً مصیبت زدگان تک بروقت امداد نہ پہنچ سکی مگر جیسے ہی عوام کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تو امداد کا ایک سلسلہ چل نکلا جو الحمدللہ تاحال جاری ہے

یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی رہا ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
راشن راشن اور ترجیحاً راشن ہی اکٹھا کر کے بھیجا گیا

یقیناً راشن ہی ترجیح ہونی چاہیے تھی اور بہت حد تک اب بھی رہے گی مگر اس دوران ہم بہت سی دیگر اہم ضروریات و لوازم کو نظر انداز کر گئے۔

اپنے گھر میں اور اپنے روزمرہ معمولات پر نظر ڈالئے اور نوٹ کیجئے کہ ان لوگوں کو کون سی وہ چیزیں اور اشیا ضرورت ہو سکتی ہیں جن کے بغیر شاید آپ کا بھیجا ہوا راشن بھی ان کے لئے کارآمد نہ ہو

اپنی محدود اور ناقص فہم کے مطابق میں اس میں پہلے نمبر پر نقدی کو سمجھتا ہوں کیونکہ ہماری طرف سے بھیجی گئی اشیا کی کمی کو وہ فقط نقدی سے ہی پورا کر سکتے ہیں جبکہ چند باقی اشیا کی لسٹ درج ذیل ہے

گیس سلنڈر مع گیس، مچھر بھگاوٴ لوشن، ٹائیگر میٹ، ٹائیگر ڈی ڈی ٹی پاوٴڈر، مچھر دانی، بستر، برتن، چھریاں، چارپائیاں، رسیاں، ماچس، پانی کے پائپ، موٹریں، صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، سرف، زنانہ مردانہ بچگانہ کپڑے، جوتے خواتین کے لئے انڈر گارمنٹس، سینٹری پیڈز، سیفٹی ریزر، بلیڈ وغیرہ

اور چاہیں تو آپ انہیں ٹی آر، گارڈر، ونڈو کھڑکیاں، فرنیچر، سائیکل، موٹر سائیکل، واشنگ مشین، استری، بچوں کے لئے کھلونے، ٹی وی، ٹرنک الغرض ہر چیز بھیج سکتے ہیں۔

یہاں مواخات مدینہ کا جزوی حوالہ دینا ضروری ہے کہ انصار نے اپنے بھائیوں کے لئے گھر بار، کاروبار، زمین، برتن اور اپنی ملکیت کی تقریباً ہر چیز اپنے مصیبت زدہ مہاجرین بھائیوں میں نصف بانٹ دی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان خیرات کرنے والے ممالک میں ہمیشہ سے پہلے نمبر پر موجود ہوتا ہے

تو اے عوام پاکستان سیلاب زدگان کو ہر اس چیز کی ضرورت ہے جو آپ کے استعمال میں رہتی ہے۔

میں سیلاب زدہ علاقوں میں صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والی بستیوں کو بچشم خود دیکھ آیا ہوں۔ وہ بالکل ہمارے جیسے ہی انسان ہیں ان کے بچے بھی ہیں اور ان کے احساسات و جذبات بھی بالکل ہمارے ہی جیسے ہیں۔

ڈاکٹرز، نرسنگ و پیرامیڈیکل سٹاف کو ان علاقوں کے لئے وقت نکالنا چاہیے کہ وہاں حاملہ خواتین کی بھی کثیر تعداد موجود ہے جنہیں زچگی اور حمل سے متعلقہ بیشمار مسائل درپیش ہیں۔ والنٹیئرز کو ان علاقوں میں جا کر وہاں کام کرنے والوں کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔

یقین کیجئے 30 فیصد سے زائد پاکستان ڈوب چکا ہے۔

سرمایہ دار استحصالی ریاست پر امیدیں مت رکھئے کہ یہ وہ مردار خور ہیں جو مردوں کے کفن پر بھی کمیشن لیتے ہیں۔

ریاست ضرور امداد کرے گی مگر ایک طویل مرحلے کے بعد ۔

فنڈز چلیں گے اور بیشمار مراحل سے گزرنے کے بعد سکڑ کر، متاثرین کو اچھا خاصا ذلیل کرنے کے بعد اونٹ کے منہ میں زیرے کی مقدار کے برابر پہنچیں گے۔ اور سرکاری اہلکاروں کی توندیں پھٹنے والی ہو جائیں گی۔

لہٰذا آپ کی ذمہ داری کبھی ختم نہ ہونے والی ہے ہر ممکن حد تک نبھاتے جائیے شاید ہماری آئندہ نسلوں کے لئے بہتر پاکستان کبھی نہ کبھی بن ہی جائے۔ اگر آپ نے بروقت امداد جاری نہ رکھی تو بیماریاں اور وبائیں پھوٹنے کا شدید خدشہ باقی رہے گا اور درپیش انسانی المیہ وسعت اختیار کر جائے گا

پاکستانی عوام زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments