دیوالیہ ائر لائنز کے مسافر


اواخر ستمبر انیس سو ننانوے کی اس خوشگوار سہ پہر ہم آئر لینڈ کے دوسرے بڑے شہر لیمرک کے شینن ہوائی اڈہ کے لاؤنج میں ویران آنکھیں ہونق چہرے لئے اے بی ائر لائنز کے خالی مکمل ویران پڑے بوتھ کو گھور رہے تھے۔ چار بجے کی پرواز سے لندن جانا تھا اور کچھ گڑ بڑ سی لگنے پر دوسرے ائر لائنز کے بوتھ والے نے مسکراتے خوش خبری سنائی تھی کہ خبریں سنتے رہنا چاہیے دوپہر پورے بارہ بجے اس ائر لائنز نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اسی لمحے سارا عملہ ڈیرہ ڈنڈا اٹھا بھاگ گیا ہے۔

خبر سننے والے دن کی باقی پروازوں میں خالی نشستیں محفوظ کروا چکے تھے اور اگلی صبح آٹھ بجے لندن ہیتھرو سے پی آئی اے کی بڑی مشکل سے کنفرم ہونے والی نشستوں پر کسی اور مسافر کے لمبا لیٹ کے سفر کرتے تصور کر رہے تھے کہ ہمارا تو وقت پہ پہنچنا کچھ ممکن نہ لگ رہا تھا۔ انیس سو ننانوے ہمیں ننانوے کے پھیرے دینے پہ تل چکا تھا کہ کسی بھلے مانس نے پریشان دیکھ بتایا کہ بھائی شام دیر ایک کمپنی کی پرواز لندن سٹین سڈ ائرپورٹ جاتی ہے۔

اس میں نشستوں کا پتہ کرو۔ لندن تو پہنچ جاؤ گے۔ قسمت اچھی تھی یا کیا، نشستیں مل گئیں اور ہم دونوں میاں بیوی بورڈنگ گیٹ کے پاس بیٹھے سٹین سڈ ائر پورٹ سے ہیتھرو کا فاصلہ اور پہنچنے کی راہوں کی معلومات لے رہے تھے۔ اور جب آٹھ بجے شام اڑنے والی پھٹیچر سے جہاز کی یہ پرواز رات ساڑھے نو بجے اڑنے پہ آمادہ ہوئی تو ہم رات گیارہ کے بعد سٹین سڈ اڈے سے باہر نکل ہیتھرو کا رستہ ڈھونڈتے کا سوچتے بالآخر گیت ”اے پھنسے دل کیا کروں“ اور ”جائیں تو جائیں کہاں“ والے مسئلے کا حل سوچنے لگے۔

گیارہ بجے شب دستی سامان کندھوں پہ لٹکائے پہیے والے اٹیچی گھسیٹتے ہم پاسپورٹ چیک کرنے والے امیگریشن سٹاف کسٹم وغیرہ کے کاؤنٹر ڈھونڈتے خاصا وقت ضائع کرتے باہر نکل چکے تھے کہ وہاں بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ اے میرے نرالے ہوائی اڈے، کچھ ایسی ادا کا نام بھی ہے؟ ویران لاؤنج میں ایک مسافر دیکھتے اس سے پوچھا کہ بھائی کوئی ٹرین بس ٹیکسی؟ پہلے تو کندھے اچکائے پھر اچانک رک پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا کہ بھائی اول تو ٹیکسی یہاں اس وقت ملنا مشکل ہے دوسرے دو ڈھائی سو پونڈ سے کم مشکل سے ہو گا ہیتھرو تک کا کرایہ۔

وہ دیکھو ٹرین بس کا ٹکٹ گھر ہے۔ ٹکٹ بابو بولا آخری بس پانچ منٹ میں نکل جانی ہے۔ ٹرین بس کا فل ٹکٹ یک طرفہ لو۔ جہاں تک بس جائے وہاں جا کے جو بندوبست ہو سکے تمہاری قسمت اور بس سٹاپ کی طرف اشارہ کیا۔ دائیں بائیں دیکھتے بس سٹاپ ڈھونڈ رہے تھے کہ دور سے بس آتی نظر آئی۔ جہاں رکی ہم اس سے آگے نکل آئے تھے۔ واپس سامان گھسیٹتے بھاگے مگر دروازہ بند اور بس روانہ ہو چکی تھی اور ہم پھر ہونؔق چہرے بنائے ویران آنکھوں سے جاتی بس کو دیکھتے ”چھوڑ گئے بالم، ہمیں ہائے اکیلا چھوڑ گئے“ کی تصویر بن چکے تھے۔

بیگم کو سامان کے ساتھ کھڑا کر ٹکٹ گھر کی طرف لوٹا تو ٹکٹ گھر بند کر بندہ نکل رہا تھا۔ انگلینڈ کے انگریزوں کے نوواردوں سے سلوک ( رستہ وغیرہ پوچھنے پر ) کا تجربہ کبھی خوشگوار نہ رہا تھا مگر یہ کوئی بھلا مانس تھا۔ سمجھایا کہ آخری ٹرین دس منٹ بعد چلنے والی ہے۔ ٹیوب ٹرین سسٹم کا پتہ ہے؟ اس کے پوچھنے پہ عرض کیا تین مرتبہ آٹھ دس روز لندن میں گزارے ہیں اور اسی کا سبق سیکھا ہے۔ ایک سٹیشن کا بتایا ( نام بھول چکا ) وہاں اتر جانا۔

جیب سے نقشہ نکال پکڑاتے کہ راستے میں اسے دیکھ اپنا رستہ متعین کرنا۔ پلیٹ فارم کے نزدیک چھوڑتے دل سے نکلی دعائیں وصول کرتا گیا۔ اور اب ہم ٹیوب ٹرین میں بیٹھ نقشہ پہ نظر جمائے تھے اور کھڑکی کے اوپر اس ٹرین کے روٹ کی لکیریں جانچ رہے تھے اور بیگم ساتھ سہمی بیٹھی تھیں۔ مطلوبہ سٹیشن پہ اتر ٹرین کی آمدورفت بتاتی روشن پٹی پہ نظر ڈالی تو ایلنگ براڈ وے کے لئے ٹرین تین منٹ میں پہنچنے والی تھی اور دوسرے پلیٹ فارم پہ اوور ہیڈ پل سے چڑھ کے جانا تھا اور یہ پل بھی کچھ فاصلے پہ تھا اور ہم تھکے ہاروں کے کندھوں پہ ہینڈ بیگ لٹکے اور ہاتھ اٹیچی کیس گھسیٹ رہے تھے اور خاکسار کے دل ناداں کے خاصے اوکھے بائی پاس کو ابھی دس ماہ ہی گزرے تھے۔

بیگم سے عرض کیا کہ سمجھو پیچھے کتے لگے ہیں لہذا دوڑو۔ دوڑ بھی رہے تھے دعا بھی جاری۔ آج تک حیران ہوں کہ پہلی مرتبہ ٹیوب ٹرین کو تین منٹ لیٹ ہوتے دیکھا۔ ہم سیڑھیاں اتر رہے تھے اور ٹرین سٹیشن پہ داخل ہو کر آہستہ ہو رہی تھی۔ سانس ٹھیک ہوئی تو کچھ تسلی تو ہوئی کہ اب ہیتھرو کے نزدیک تو پہنچیں گے۔ نقشہ سے پتہ چل چکا تھا۔ ایلنگ براڈوے کا پتہ اور اس سٹیشن کا نام آتے ہی یاد یہ بھی آیا کہ انیس سو نوے میں آوارہ گردی کرتے پلیٹ فارم پہ گھوم رہا تھا کہ اونچی آواز میں اپنے نام کی پکار سنی۔

سامنے والے پلیٹ فارم سے ایک پاکستانی ہاتھ ہلاتے کہہ رہا تھا کہ یہیں رکو، میں آتا ہوں۔ یہ ادریس تھا کالج کا کلاس فیلو۔ بھاگتا آیا اور گپ شپ شروع ہوئی۔ دوستوں کا ذکر شروع ہوا تو میں نے بتایا کہ یار وہ تمہارا دوست حنیف ملا تھا دو تین برس پہلے۔ بتا رہا تھا کہ انگلینڈ میں ہے وہ بھی اور انجینئر بن چکا ہے۔ قہقہہ مار اٹھا اور کہنے لگا وہ یہاں ریلوے میں کانٹے تبدیل کرتا ہے اور میں ریلوے لائن چیک کرنے کی ذمہ داری نبھاتا ہوں۔

سانس ٹھیک ہوتے یاد آیا کہ ہم تو پیاسے بھی ہیں اور بھوکے بھی اور پاس کچھ بھی نہیں۔ کوئی چالیس منٹ کا سفر تھا ہر گزرتے سٹاپ کے ساتھ ٹرین خالی ہوتی جا رہی تھی اور آخری دس منٹ ہم بھوک پیاس بھول صرف اس واحد مسٹنڈا لگتے افریقن کو بوگی میں دیکھ کانپتے رہے تھے کہ رب خیر کرے۔

ایلنگ براڈوے پہ ہمارے علاوہ صرف وہی مسافر اترا تھا اور اب سوچ رہے تھے کدھر جانا ہے اور اگلی ٹرین کا پتہ کہاں سے کریں کہ روشن پٹی چلتے رہنما سائن بھی بند تھے۔ اچانک دور سے ریلوے لائن پہ چلتا آتا ایک شخص نظر آیا۔ دور سے ہی اونچی آواز میں پوچھا آپ لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو۔ وہ نزدیک آ چکا تھا۔ اتفاقاً پاکستانی جوان تھا ہمیں بھی پاکستانی دیکھ ہمارا مسئلہ سنا۔ تحمل سے سمجھایا کہ میں چیک کرنے کے بعد سٹیشن لاک کرنے آیا ہوں اور ہمیں جانا ہو گا اور رہنمائی کی کہ باہر فلاں جگہ کے نزدیک بس سٹاپ ہے مگر امید نہیں کہ رات ڈیڑھ بجے کوئی بس ملے۔

مگر دیکھ لیں شاید کوئی ٹیکسی مل جائے۔ شکریہ ادا کرتے چوک پہ سامان اور اپنے آپ کو گھسیٹتے پہنچے۔ آٹھ دس مرد و خواتین کھڑے تھے بیگم کو وہاں کھڑا کیا کہ میں انڈر پاس سے گزر بس سٹاپ دیکھوں۔ مدھم روشنی میں انڈر پاس کو پیشاب کدہ پانے کے ساتھ ہی آگے بیٹھے دو تین نشئیوں کے منہ سے لگے سگریٹوں کی چرس کی بو محسوس کرتے واپس آنے میں عافیت سمجھی۔ واپس بیگم کے پاس آ کے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ارد گرد رات کے مسافر، ہوٹلوں نائٹ کلبوں سے نکلے جوڑے ٹیکسی کے انتظار میں تھے۔

ہر چند لمحوں بعد کوئی ٹیکسی آ رکتی یا روکی جاتی۔ کچھ ٹیکسیاں خالی ہوتیں کچھ میں ایک دو مسافر جو اپنے روٹ کے مسافروں کو ساتھ لے لیتے۔ کچھ حوصلہ ہوا۔ ہم نے بھی ہاتھ دینا شروع کیے تین چار ٹیکسیوں کے بعد ایک کہنے لگا کہ میں نے اس مسافر کو ہیتھرو کے فلاں ٹرمینل پہ اتارنا ہے، اسے اتار آپ کو آپ کے ٹرمینل پہ اتار دوں گا بیس پاؤنڈ لوں گا۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہم ہیتھرو کے گیٹ کے سامنے اتر کر شکر ادا کر رہے تھے۔ مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔

اندرونی لاؤنج کے تمام دروازے لاک اور صرف ٹاویں ٹاویں لائٹ تھی۔ جی نصف شب سے صبح کے درمیان کوئی فلائٹ نہیں ہوتی تا شور نہ ہو اور ہم برآمدہ میں پھر رہ عشق کے مزید امتحانوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ ایک کونے میں کچھ جگہ تین طرف دیوار والی دیکھ ادھر بھاگے اور ایک بنچ بھی خالی مل گیا۔ سامان رکھ کچھ آرام کا سوچا تو تب محسوس ہوا کہ ٹھنڈ بھی بھگتنا ہے۔ رات ٹھنڈی ہوا چلتی ابر آلود سرد ہو چکی تھی۔ پانی تک نایاب، نیند تو کیا آتی سامان کا فکر کرتے مچھروں کے ڈنک سہتے پیٹ میں بھوک پیاس سے پڑتے بلوں سے لڑتے دو اڑھائی گھنٹے کوئی دو ماہ لگتے جونہی دروازے کھلنے کی آواز آئی۔ ڈھونڈتے ڈھانڈتے پی آئی اے کے بوتھ کے سامنے ڈھیر ہو چکے تھے۔ کھانے کے سٹال ابھی بند تھے۔ پانی نل سے پی لیا تھا۔ اور کوئی نو بجے پی آئی اے کے جہاز میں ہماری ندیدی نظریں فضائی میزبان کے ہاتھوں سے ناشتہ کی ٹرے پکڑ رہی تھیں۔

انیس سو ستاون میں کالج کی اکنامکس سوسائٹی کا ٹور منٹگمری کا بجلی گھر منٹگمری بسکٹ فیکٹری اور ہڑپہ کے کھنڈرات کے مطالعاتی دورے پہ نکلا۔ بس میں چودہ پندرہ طالبعلموں کا یہ غول کھپ ڈالتے کمالیہ سے آگے پہنچا تو پتہ چلا کہ دریائے راوی کا کشتیوں کا بنا پل جو چیچہ وطنی پتن کہلاتا تھا تین چار گھنٹے کے لئے بند ہے۔ (دریا پر پل بہت بعد بنا۔ بس مسافر اتار خالی یک طرفہ گزرتی۔ مسافر پیدل پل کراس کر پھر بس پہ سوار ہوتے۔) تب دریا کنارے درخت کے نیچے بیٹھ گورنمنٹ کالج لائل پور کے طلباء کا یہ گروپ اب تک مشہور اس پتن کا یہ گیت تالیاں بجاتے قوالی کرتے گا رہے تھا۔ ”پتناں تے راتاں آیاں، اوئے ویکھی تیری چیچہ وطنی“۔ ( تمہارا شہر چیچہ وطنی دیکھنے کے شوق میں ہمیں رات چیچہ وطنی کے پتن پر گزارنا پڑ گئی)۔

بیگم ناشتہ ختم کرتے ہی خراٹے لینا شروع کر چکی تھیں اور ہم رات کی داستان کی جگالی اے بی ائر لائنز کو مخاطب کر کے چٹکی بجاتے گنگنا رہے تھے۔ ”اوئے پتناں تے راتاں آیاں اوئے ویکھی تیری چیچہ وطنی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments