بوسنیا کی چشم دید کہانی (12


جولائی کے تیسرے ہفتے میں ٹامس اور ہنرک کا مشن میں عرصہ تعیناتی اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی روانگی سے قبل ہماری اور ترجمانوں کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک مشترکہ پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ پارٹی لوبینیا میں ترجمان خواتین کے وسیع گھر کے برآمدے میں منعقد ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر علی الصبح تک جاری رہی۔ قیام مشن کے دوران اس کے بعد بھی کئی پارٹیاں گاہے گاہے منعقد ہوتی رہیں لیکن ماضی پرست سیکا کی نظر میں اس پارٹی کے مقابلے میں کوئی اور تقریب ایسی یادگار نہ بن پائی۔ وہ اس پارٹی اور سٹیشن کے ابتدائی دنوں کو یاد کر کے ایک آہ کے ساتھ اکثر کہا کرتی تھی۔

Once there was a station, once there was a family.

ٹامس اور ہنرک کی روانگی کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ سٹیشن کے عملے میں چار بلغارین افسران کا اضافہ ہوا۔ یہ ٹونی، پلامین، وینو اور وکی تھے۔ کرس اور بولک کے بعد مشرقی یورپ کے کسی ملک کے افسران سے یہ ہمارا دوسرا واسطہ تھا۔ وینو اور وکی کا تو کچھ ہفتوں بعد موسطار تبادلہ ہو گیا۔ البتہ ٹونی اور پلامین ہمارے ساتھ رہ گئے۔

ٹونی اگرچہ ایس پی کے عہدے کا افسر تھا لیکن کرتوتوں کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ حوالدار لگتا تھا۔ اس نے ڈیوٹی پر آتے ہوئے شاید ہی کبھی منہ دھویا ہو اور کنگھی کی ہو۔ ڈیوٹی ہو یا فراغت دونوں صورتوں میں اس کا ٹھکانہ کیفے بار ہی ہوتا تھا جہاں وہ گھنٹوں بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہتا۔ وہ کافی اور جوس کا آرڈر ایک ساتھ دیتا اور دونوں ایک ایک گھونٹ کر کے ایک ساتھ ہی پیتا تھا۔ ایسے ایک موقع پر میں نے اسے کہا کہ تم اگر ایسا میرے ملک میں کرو تو لوگ تمہاری ذہنی حالت کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہ کریں۔

اس کے جواب میں وہ بولا، میری ذہنی حالت کے بارے میں رائے قائم کرنا تو بعد کی بات ہے تمہارے لوگ ویسے بھی میرے بارے میں کوئی اچھی رائے شاید ہی قائم کریں۔ میں گورا ہوں اور ان کے نزدیک ہر گورا انگریز ہوتا ہے جنہیں آپ اچھا نہیں گردانتے۔ دوسری طرف میرا گورا پن انگریزوں کا مجھے کالوں کے مقابلے میں ترجیح دینے کا باعث کبھی نہ بن سکا کیونکہ ان کے نزدیک مشرقی یورپین کسی چھوٹے خدا کے بندے ہیں۔ لہذا میں رویوں اور آراء کے بارے میں زیادہ touchy نہیں ہوں اور زندگی کو بس اپنی مرضی سے جینا پسند کرتا ہوں۔ اس دعوے کی نوعیت بھی قتیل شفائی کے دعوے کی بس مماثل ہی سمجھیے۔

جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس تھم جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

ٹونی کی بیگم اکثر اس کی مہمان رہتی تھی اور ہر دورے کے دوران اس کا قیام دو تین ہفتے ہوا کرتا تھا۔ وہ انگریزی برائے نام ہی جانتی تھی لیکن چونکہ خواتین سے رابطہ کرتے ہوئے میری ان کی زبان کی جانکاری ہمیشہ بہتر ہو جاتی ہے لہٰذا میں بھی اس کے حلقہ احباب میں شامل ہونے کا شرف رکھتا تھا۔ اس کے سٹولک میں قیام کے دوران ٹونی کیفے بار میں کبھی بھی اکیلا نہیں دیکھا جاتا تھا اور دونوں وہاں ہم مشرب کے طور پر اکٹھے پائے جاتے تھے۔

یہ منظر اکثر دیکھنے میں آتا تھا کہ راکیہ ( بئیر ) کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ کبھی انگلیوں سے ٹونی کے بال سنوارنا شروع کر دیتی اور کبھی اس کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موندھ لیتی۔ ٹونی کے بالوں کو چونکہ ہر وقت کنگھی کی ضرورت ہوتی تھی لہٰذا ان کو سنوارنے کی کوشش ہم جیسے حاسد اظہار محبت کا ذریعہ نہیں گردانتے تھے البتہ دوسرا ”پوز“ یہ اشارہ ضرور دیتا تھا کہ خاتون ٹونی کے عشق میں بلغارین کی عزت کا پاس سر بازار بھی کم ہی رکھتی تھی۔

ایسی معشوقانہ حرکتیں اور وہ بھی تکلف برطرف کھلے عام کرنے والی جیون ساتھی کا خلوتی روپ اس سے بالکل متضاد ہو سکتا ہے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ٹونی اور پلامین چپلینا کے مرکز میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اقبال جس کے پاس درون خانہ راز بھی نہ معلوم کیسے پہنچ جاتے تھے اس کی اطلاع یہ تھی کہ ٹونی اور اس کی بیگم کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہیں کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو کہ ان کا فلیٹ میدان کارزار نہ بنتا ہو۔ مجھے اس کی بہت سی دوسری خبروں کی طرح اس خبر کی صحت پر بھی کچھ شبہ ہی تھا۔

لیکن جب بعد میں ٹونی ہمارے ہاں سے تبدیل ہو کر پروزور نامی قصبے چلا گیا تو ایک دن اطلاع آئی کہ اس کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے حکام بالا نے اسے مشن بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس پر جلد ہی عمل درآمد بھی ہونے والا ہے۔ اس اجمال کی جب تفصیل پتہ چلی تو وہ کچھ یوں تھی کہ ایک رات جب ٹونی اور اس کی بیگم کی روزانہ کی دھینگا مشتی جب اہل محلہ کی برداشت سے باہر ہو گئی تو کسی نے فون پر سٹیشن کمانڈر کو شکایت کر دی۔

سٹیشن کمانڈر جرمن پولیس افسر تھا۔ وہ بھاگا بھاگا ٹونی کی رہائش گاہ پہنچا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ٹونی نے سٹیشن کمانڈر کے اس پیشہ ورانہ رویے کو اپنی نجی زندگی میں مداخلت تصور کیا اور اسے ڈانٹ کر واپس کر دیا۔ وہ اس وقت تو سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپس لوٹ گیا لیکن اگلی صبح، ہمارے دیسی افسران کی مانند، اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ زیادہ ہی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارا معاملہ تحریری طور پر حکام بالا کے نوٹس میں لے آیا۔ اس دوران ٹونی کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے معاملے کو رفع دفع کرنے کو سٹیشن کمانڈر کے بہت ترلے کیے لیکن اب بات بننے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ یوں کچھ دنوں بعد ٹونی کا مشن میں قیام بہت ناخوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوا۔

وہ مشن چھوڑنے سے پہلے ہمیں ملنے سٹولک آیا۔ مجھے اور اقبال کو اپنے گھر کا پتہ دیا اور اصرار کیا کہ کسی چھٹی کے دوران ہم بلغاریہ ضرور آئیں اور اس کے مہمان بنیں۔ مجھے اس نے اس موقع پر ایک لکڑی کی پلیٹ دی جس پر صوفیہ کے مرکزی گرجا کی تصویر کندہ تھی۔ میں اس سے تمام تر بے تکلفی کے باوجود یہ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا کہ اس کی ازدواجی زندگی کیونکر ناخوشگوار ہے۔ میں اس جوڑے کو جس رنگ ڈھنگ میں دیکھتا رہا تھا اس کے بعد ان کی خانگی زندگی میں کسی ایسی تلخی کو ماننے کی بس ایک ہی صورت تھی کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ اہل محبت بھی کواکب سے کچھ کم نہیں اور۔

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments