سیلابی صورت حال میں غیث ویلفیئر اور دیگر اداروں کا کردار


پنجاب میں جگہ جگہ سیلاب ہے، بلوچستان میں 5 سال کے دوران کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والے 21 ڈیمز ٹوٹ گئے اور ڈیمز سے نکلنے والے سیلابی ریلوں نے صوبے میں جہاں تباہی مچائی وہیں یہ ریلے بلوچستان کی معیشت کو بھی بہا لے گئے۔ خیبرپختونخوا میں دریاؤں، ندی نالوں کے ساتھ آبادی اور ہوٹلز کو سیلابی پانی جہاں ساتھ بہا لے گیا وہیں کئی شہروں اور دیہاتوں میں بھی تباہی مچا دی، مالی نقصان کے علاوہ سوشل میڈیا پر انسانی لاشوں کی تصاویر وائرل ہیں اور دل پر یہ بوجھ پڑ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو، کہ یہ انسانی المیہ اور ہماری خاموشی عرش ہلا دے پھر نہ کوئی حکمران بچے نہ کوئی انسان۔

حکمران آپس کی لڑائیوں، پنجاب حکومت، خیبرپختونخوا اور وفاق گتھم گتھا ہیں ایک دن یہ پرچے کاٹتے ہیں تو اگلے دن دوسرا فریق پرچے کاٹ کر گرفتاریوں کی دھمکی دے دیتا ہے۔ اس جنگ میں کے پی کے اور پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے وسائل استعمال ہو رہے ہیں، تینوں میڈیا کے ذریعے یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ دوسرا چور ڈاکو ہے اور ہم بہت اچھے، لیکن اگر یہی وسائل سیلاب متاثرین، بارش متاثرین اور سیلاب سے متاثرہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہوجائیں اور حکمراں اپنے باقی ماندہ وقت کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کریں تو کتنا اچھا ہو۔

لیکن ایسا کیونکر ہو گا، جن کا مقصد ہی اقتدار ہو وہ تو اقتدار کی جنگ میں مصروف رہیں گے۔ یہ جنگ باپ، بیٹے، بیٹی، داماد کو نہیں دیکھتی تو سیلاب زدگان کون سے ان کے رشتے دار ہیں۔ البتہ اس ساری صورت حال میں افواج پاکستان کے علاوہ فلاحی اداروں کی خدمات قابل ذکر ہیں جس میں چند چیدہ چیدہ ناموں میں غیث ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ نے ابھی تک کوہستان، راجن پور، تونسہ اور اندرون سندھ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مدرسہ، مسجد سے اٹھ کر 2011 میں ادارہ بنانے والے مولانا مسعود الرحمن جو اس ادارے کے بانی و جنرل سیکرٹری ہیں خود ہر جگہ میدان عمل میں نظر آتے ہیں، کئی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ان کی پہلی ترجیح وہ علاقے ہوتے ہیں جہاں ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے کل ان کے آفیشل پیج پر میں نے دیکھا کہ ان کے بندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن متاثرین کے لیے جو کھانا لے کر جا رہے ہیں وہ ہاتھوں سے پانی سے اونچا کر اٹھایا ہوا ہے یہ کردار مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا۔

مدارس سے پڑھ کر جانے والے یہ لوگ اپنے آپ کو پہلے خدا تعالیٰ اور پھر عوام کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہیں اگر آپ ساری صورت حال کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی بھی مصیبت کے وقت میں سب سے زیادہ دکھ درد کے ساتھی یہ ہی مذہبی مولوی، ادارے انسانیت کی خدمت میں سب سے اول ہوتے ہیں غیث ویلفیئر کے رضاکاروں میں سے کئی ایک کو میں نے دیکھا کہ کشتیوں اور پیدل پانی سے راستے نالے پار کر کے بھی سیلاب متاثرین کی مدد کو پہنچ رہے ہیں۔ راستے میں گاڑیاں، رکشے الٹے ہو گئے پھر سیدھا کر سامان لوڈ کیا اور دوبارہ چل پڑے۔ اگر ایسے ادارے کے ساتھ حکومتی مدد بھی ہو تو اور بہتر طریقے سے یہ فریضہ سر انجام دیا جا سکتا ہے

موجودہ حالات میں ہمارے حکمرانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں رفاہ عامہ کے لیے کیے گئے اقدامات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہد زریں ہے، جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دیے، ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن و امان فراہم کیا، وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار فراہم ہوا، عام معمول کے حالات ہوں یا ہنگامی حالات قحط ہو یا وباء، زلزلہ ہو یا سیلاب اور جنگ، ان تمام حالات میں عوام کی رفاہ عامہ کے لیے تاریخی اقدامات کیے۔

سن 18 ہجری میں ایک نہیں بلکہ دو مصیبتیں ایک ساتھ آئیں ایک طرف طاعون عمواس، جس سے بیس ہزار سے زائد انسان کو لقمہ اجل بن گئے اور دوسری طرف خشک سالی اور قحط، طاعون اور وبا کے اثرات تو فلسطین و شام تک محدود رہے مگر قحط نے پورے جزیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور موسم گرما بھی طویل ہو گیا اور نو مہینے بارش کا ایک قطرہ تک نہ برسا، پانی کی کمی نے فصلیں تباہ کر دیں، حتیٰ کہ دور دور تک صحرائی گھاس بھی عنقا ہو گئی، خوراک و پانی کی کمی کے باعث ہزارہا مویشی مر گئے۔

اس قحط کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وحشی جانور اور درندے بھاگ بھاگ کر انسانوں کے پاس آنے لگے کہ شاید کچھ مل جائے ”اور لوگ ہڈیاں اٹھاتے نظر آتے تاکہ انہیں ابال کر کچھ غذائیت حاصل کرسکیں، نہایت بھوکے انسان جانوروں کے بل کھودتے پائے گئے تاکہ جو کچھ ملے، اسے کھا کر اپنی بھوک مٹا سکیں۔ اس وقت خوردنی اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی۔ علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ ایک برتن دودھ کی قیمت چالیس درہم تک پہنچ گئی، حالاں کہ یہی دودھ پہلے چند درہم کے عوض دستیاب تھا۔

حد تو یہ کہ سونا چاندی اور درہم و دینار بے معنی ہو کر رہ گئے، کیوں کہ عرب میں خریدنے کے لیے سامان خورد و نوش ہی موجود نہ تھا۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے امیر المؤمنین نے جو طریقہ اختیار کیا، جو انتظامات کیے اور جو اقدامات اٹھائے، وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اپنی رعیت کے ساتھ پر خلوص محبت، خیر خواہی کے جذبے اور عدیم المثال انتظامی صلاحیت کی دلیل ہیں۔

لنگر خانے کا قیام:حضرت عمر نے زمانہ قحط میں ایک آٹا گھر ( لنگر خانہ ) قائم فرمایا، یہ ایک مالی ادارہ تھا جس کے سامان کو ایام قحط میں وفود مدینہ میں تقسیم کیا جاتا تھا، اس میں آٹا، ستو، کھجور اور کشمش وغیرہ کھانے کی چیزیں تھیں، بدویوں، مسافروں، اور دیہات کے باشندوں میں اس آٹا گھر سے خوراک تقسیم کی جاتی۔ یہ آٹا گھر بحرانی حالت میں کافی بڑا بنا دیا گیا، تاکہ کئی ہزار لوگ اس سے مستفید ہو سکیں، تقریباً نو مہینے تک مدینہ آتے رہے اور اس آٹا گھر سے ضرورت کی اشیاء لیتے رہے۔

راشن کی تقسیم: خشک سالی اور قحط کے دوران جو لوگ خود حاضر ہونے کے قابل ہوتے، وہ تو بہ ذات خود آ کر دسترخوان خلافت پر کھانا کھا لیتے اور جو خود حاضر نہیں ہوسکتے تھے، جیسے خواتین، بچے بوڑھے وغیرہ، ان کے لیے کھانا گھر پر بھجوا دیا جاتا تھا اور بسا اوقات تو ہر مہینہ یک مشت بھجوا دیا جاتا۔

مالک بن اوس کہتے ہیں کہ ”رمادہ“ کے سال میری قوم کے سو گھرانے عمر کے پاس مدینہ آئے اور جبانہ کے مقام پر ٹھہرے، چناں چہ جو لوگ عمر کے پاس حاضر ہوئے وہ ان کو کھلاتے اور جو آ نہیں سکتے تھے، ان کے لیے آٹا کھجور اور سالن ان کے گھروں میں بھجواتے، چناں چہ آپ میری قوم کے لوگوں کے پاس ان کی ضرورت کا سامان ہر مہینہ بھجواتے رہتے تھے۔

بنیادی ضروریات کی تعین کرنے کا ایک انوکھا تجربہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے ایک جریب (تقریباً پچیس سیر ) آٹا پکا کر تیس غریبوں کو کھلایا اور پھر اتنی ہی مقدار شام کو پکا کر تیس غریبوں کو کھلایا، جب سب پیٹ بھر کر کھا چکے تو انہیں رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا کہ ساٹھ افراد کے کھانے پینے پر کون کون سی شے کتنی استعمال ہوئی ہے۔ جب ہر شے کا حساب کتاب ہو چکا تو آپ نے حکم دیا: وبا و قحط سے متاثر ہر مفلس کو فلاں فلاں شے ہر ماہ اتنی مقدار میں بیت المال سے فراہم کی جائے۔

وظائف کا اجراء : آپ نے بوڑھے و معذور غیر مسلموں کے لیے وظائف مقرر فرمائے، آپ ؓنے ہر دودھ پیتے بچے کے دودھ کی عمر سے گزر جانے پر وظیفہ مقرر کیا، ایک دن رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے ایک بچے کے مسلسل رونے کی آواز آ رہی تھی، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک بچہ ماں کی گود میں مسلسل روئے جا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بچہ ماں کی گود میں زیادہ دیر نہیں رو سکتا، ضرور کوئی غیر معمولی بات ہے، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ماں بچے سے دودھ چھڑانا چاہتی ہے تاکہ بچے کا وظیفہ مقرر ہو جائے لیکن بچہ ابھی ایک سال کا ہے اور دودھ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اس پر آپ ؓنے اپنے ساتھی سے کہا کہ عمر کی مملکت میں اتنا ظلم ہو رہا ہے، حضرت عمرؓ نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ مائیں اس پالیسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وظیفہ حاصل کرنے کی لالچ میں اپنے بچوں سے دودھ چھڑوا رہی ہیں۔ آپ ؓنے حکم دیا کہ آج کے بعد بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔

بیت المال کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے گئے : قحط میں اس قدر شدت پیدا ہو گئی کہ لوگوں کی قوتیں جواب دے گئی، اور جو کچھ ان کے پاس محفوظ تھا، سب ختم ہو گیا، حتی کہ کچھ بھی نہیں بچا، چناں چہ آس پاس کے لوگ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓکے پاس دارالخلافہ مدینہ منورہ آنے لگے۔ آپ نے مدینہ منورہ کے بیت المال میں جو کچھ موجود تھا، وہ سب کچھ تقسیم کر دیا۔

علامہ ابن کثیر بیان کرتے ہیں : ”امیر المؤمنین کے پاس بیت المال میں جو کچھ غذائی مواد یا مال موجود تھا، وہ ان میں خرچ کر ڈالا حتیٰ کہ اسے ختم کر ڈالا“ حضرت عمر کی کوشش یہ تھی کہ قحط سالی سے متاثر عوام کے دکھوں کا مداوا بیت المال سے کیا جائے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام ایک خط لکھ کر حکم دیا کہ سال میں ایک دن ایسا مقرر کرو، جب خزانہ میں ایک درہم تک باقی نہ رہے اور وہاں جھاڑو لگا دی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میں نے ہر حقدار کا حق ادا کر دیا ہے۔

اور بہ ظاہر یہ معمول کا ایک اقدام نظر آتا ہے کہ سرکاری خزانے سے غریب، نادار اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد کی جائے، لیکن ایسی مدد کہ بیت المال ہی خالی رہ جائے یہ مثال شاید کہیں اور نہ ملے ایسے فراخ دلی کی توقع امیرالمؤمنین حضرت عمر سے ہی کی جا سکتی ہے۔ قدرتی آفات، حادثات اور مصائب تو آج بھی آتے رہتے ہیں، لیکن ہماری موجودہ دور کی حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خزانہ پر بوجھ نہ پڑے۔ حضرت عمر فاروق ؓکا نظریہ یہ تھا کہ خزانہ پبلک کے لیے ہوتا ہے اگر پبلک نہ رہی تو خزانہ کس کام کا ۔

کاش کے ہمارے آج کا حکمران طبقہ اس اصول کو سامنے رکھ کر پالیسی وضع کرے تو غریب عوام کے بے شمار مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور وہ زریں اصول یہ ہے کہ ”خزانہ عوام کے لیے ہے، عوام خزانہ کے لیے نہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments