الیکٹرونک روپیہ کا متبادل نظام ناگزیر


اربوں انسانوں کے خلاف پوری دنیا میں مالیاتی آمریت کی اجارہ داری کے لئے ڈیجیٹل نظام کو کاغذی کرنسی کو غریب ممالک کو اپنی غلامی اور محتاجی کے چنگل میں پھنسانے اور بین الاقوامی مذموم عزائم کو تقویت دینے کے لئے ایک مربوط اور منظم منصوبہ بندی سمجھا جاتا ہے جس پر متواتر عمل درآمد جاری ہے۔ ”انٹرنیشنل کانفرنس برائے گولڈ دینار مالیات“ جو کوالالمپور کے پڑا ٹریڈ سینٹر میں مورخہ 24 اور 25 جولائی 2007 ء کو منعقد ہوئی تھی جس میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم تن ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مالیات کے حوالے سے انتہائی پر مغز تقریر کی تھی۔

جس میں مرکزی خیال یہ تھا کہ ”سونے کے دینار کے سکے واپس لائے جائیں اور اس کاغذی مالیاتی نظام کو تبدیل کر دیا جائے جو امریکی ڈالر کے پر فریب تانے بانے سے بندھا ہوا ہے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اس معاشی اور مالیاتی جال سے نکال سکیں“ ۔ یہ خصوصی طور پر ان لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جو ڈیجیٹل نظام کے آگے رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، عنقریب یہ نظام اپنے ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچے گا جہاں موجودہ رائج کاغذی نوٹ کا نظام ہے۔

کاغذی نوٹ کی جگہ بتدریج ”الیکٹرونک روپیہ کا نظام ساری دنیا میں رائج کیا جا رہا ہے جیسے بغیر حجت کے قبول بھی کر لیا جائے گا، جبکہ ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ بنکوں میں رکھے اربوں روپوں سے سود بنک حاصل کرتے ہیں اور جن کے اکاؤنٹ ہوتے ہیں، وہ“ ڈیبٹ کارڈ ”یا سودی نظام میں گرفتار ہونے والے“ کریڈٹ کارڈ ”کے ذریعے ترسیل زر کو ممکن بنا رہے ہیں۔ جبکہ ای بینکنگ کے ذریعے بھی تجارتی لین دین معمول کا ذریعہ بن چکے ہیں اور بتدریج ایسے عام لوگوں پر بھی لاگو کرایا جا رہا ہے جس کی ایک چھوٹی مثال“ ایزی پیسہ یا موبائل فون ”کے ذریعے مواصلات زر کا پہنچانا بھی ہے۔

دراصل یہ ایک ایسا ڈیجیٹل نظام تشکیل پایا ہے اس کا بنیادی مقصد دنیا کے مالیاتی نظام سے اس روپیہ کو جس میں اس کی اپنی ذاتی قدر و قیمت موجود تھی اس کو ایسے روپیہ سے تبدیل کر دینا تھا جس کی کوئی ذاتی قیمت نہ ہو۔ علاوہ ازیں ہمیں سمجھنے کے لئے، کہ جیسے ہی کسی ملک کی کرنسی کی قیمت گھٹا دی جاتی ہے، وہاں پر زمین و جائیداد کی قیمت، مزدوری اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں ان لٹیروں کے لئے سستی ہوجاتی ہیں جنہوں نے یہ نظام ترتیب دیا ہے۔

پاکستان میں ڈالر کے موجودہ اتار چڑھاؤ میں جن مالیاتی لٹیروں کو کھربوں روپیہ کا فائدہ پہنچا ہے وہ اسی کاغذی کرنسی نظام کا ایک حصہ ہے۔ جب پیسوں کی قیمت گھٹ جاتی ہے تو آئی ایم ایف ان ممالک پر پرائیویٹائزیشن کے لئے دباؤ ڈالتی ہے اور پھر مالیاتی لٹیرے ان ممالک کا پیٹرول، گیس، بجلی بنانے کے کارخانے، ٹیلی فون کمپنیاں اور دیگر صنعتی اور معدنی وسائل اونے پونے دام خرید لیتے ہیں۔ کالے دھن کو سفید کرنے کرنے کے اسکیمیں لائی جاتی ہیں اور غیر قانونی دھندوں و ہتھکنڈوں سے اکٹھا کیے جانے والا روپیہ قانونی بن جاتا ہے۔

اپریل 1933 ء کے ایک واقعے سے ڈیجیٹل نظام کی بین الاقوامی منصوبہ بندی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اس مالیاتی نظام کے تحت دولت کی قانونی چوری کس طرح کی جاتی ہے۔ امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کے لئے سونے کے سکے، ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکٹ رکھنا جرم قرار دے دیا گیا، سونے کے سکوں کو لین دین کے لئے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کر دیا گیا، یوں یہ سکے روپے کی طرح خرید و فروخت میں استعمال نہیں ہوسکتے تھے، امریکی حکومت نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نظر آئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزا ہوگی، ان سکوں کی تصدیق کے عوض امریکہ کے فیڈرل ریزرو بنک نے جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، کاغذی نوٹ (امریکی ڈالر) جاری کر دیے اور ہر ایک اونس کے عوض 20 ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا، گویا ایک اونس سونے کا نعم البدل کاغذی نوٹ میں تبدیل کر دیا گیا، نتیجہ کے طور پر عوام دوڑ پڑی، قید اور جرمانہ سے بچنے کے لئے اپنے سونے کے سکوں کے عوض ڈالے کے نوٹ تبدیل کروانے لگی، مگر جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے تھے انھوں نے سونے کو تبدیل کرنے کے بجائے مزید سونا خریدنا شروع کیا ور انہیں سوئس بنکوں میں بھیجتے چلے گئے اور پھر اسی سال برطانیہ نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں یہی کارروائی کی اور سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی کاغذی کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ کو سونے کی ضمانت سے الگ کر دیا، جب امریکہ میں تمام کا تمام سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہو گیا تو جنوری 1934 ء میں امریکی حکومت نے اپنی مرضی سے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں 41 فیصد کی کمی کردی اور اس کے ساتھ ہی اپنے اس قانون کو جس کے ذریعے سونا رکھنا ممنوع کر دیا گیا تھا، ختم کر دیا، اب امریکی عوام پھر دوڑی کہ اپنے کاغذی نوٹوں کو واپس سونے میں تبدیل کر لے مگر اب ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے فی اونس سونے کی قیمت 35 ڈالر ہو گئی تھی، اس عمل کے دوران عوام کی 41 فیصد لوٹ لی گئی۔

ستمبر 1931 ء میں برطانوی پاؤنڈ کی قیمت 30 فیصد گرائی گئی جو 1934 ء تک 40 فیصد پر پہنچ گئی، اس کے بعد فرانس نے اپنی فرانک کی قیمت کو 30 فیصد گرا دیا، اٹالین لیرا کو 41 فیصد اور سوئس فرانک کو 30 فیصد تک کم کر دیا گیا، اور تمام یورپی ممالک نے یہ عمل ہر جگہ دوہرایا، یہاں تک کہ یونان نے اپنی کرنسی کو یک دم 59 فیصد تک کی کمی کردی۔ اس پالیسی نے بے روزگاری کو جنم دیا، پوری دنیا میں تجارت شدید خسارے میں مبتلا ہو گئی، جس کو اس صدی کی دہائی کا ”پستی اور اداسی کا دور کہا گیا۔

ڈیجیٹل نظام کے تخلیق کاروں نے کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام ”بریٹن ووڈز معاہدہ کر لیا جس میں سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کر لیا، جو بظاہر ٹھیک تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کسی زر ضمانت کے چھاپے جا سکتے تھے مگر اس کا کاروباری دنیا میں حقیقی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا، لیکن اس معاہدے نے 1944 ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کر دیا، جس کا مقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کے نظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کیے رکھنا تھا لیکن 1971 ء میں یہ منصوبہ بے نقاب ہوا اور امریکہ اس عالمی معاہدہ کی اس شق سے منحرف ہو گیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی۔

اس وقت بھی اسلامی دنیا کے معاشی ماہرین خواب غفلت میں ہیں کہ اسلام کے تجارتی نظام، جس میں اجناس کے بدل میں اجناس اور سونے چاندی کے سکوں کی بنا ء پر کسی یہود و نصاری کی اجارہ داری نہیں تھی، یکسر تبدیل کر کے اب اس نظام کو الیکٹرونک روپیہ کے نظام میں تبدیل کر کے دنیا بھر کے سرمایہ کو ڈیجیٹل نظام کے تحت اپنے تصرف میں رکھ کر غریب ممالک پر سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ سودی نظام کے شکار، پاکستان جیسے غریب ممالک، ان کے غلام بن کر ان کی منصوبہ سازیوں میں شریک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔

الیکٹرونک روپیہ عام ہونے سے غریب انسان کی گردن میں سرمایہ داری کی غلامی کا طوق زندگی بھر کے لئے ڈال دیا جائے گا۔ گو کہ فوری طور پر کاغذی کرنسی نظام کو یکسر ختم نہیں کیا جاسکتا، لیکن پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ممالک، ترقی یافتہ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ڈالر یا لیکڑونک کرنسی کے بجائے متبادل طریقہ کار کو اپنانا شروع کر دیں تو ڈیجیٹل نظام سے با آسانی نکلا جا سکتا ہے۔ سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور، نمک، چاول، چینی وغیرہ کو مال کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مال کے اندر اسکی اپنی ذاتی قیمت پوشیدہ ہوتی ہے اس کے باہر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments