افغانستان، کرکٹ میچ اور تصادم


علامتی معاملات معاملات کی حقیقی صورت کو سامنے لانے کے واسطے بہت کارگر ہوتے ہیں۔ کرکٹ میچ دنیا بھر میں منعقد ہوتے ہیں۔ فتح و شکست بھی کھیل کا حصہ ہے ایشیز سیریز سے لے کر پاک بھارت میچ تک طرفین کی عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے مگر شکست کے بعد تصادم، مار کٹائی ایسا شاید کبھی کبھار تو دیکھنے میں آیا ہو مگر انتہائی دکھ کے ساتھ یہ ضبط تحریر میں لانا پڑ رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ کھیلنے کے بعد پاکستان کو بار بار اسی تلخ تجربے سے گزرنا پڑ رہا ہے جو پاکستان میں بھی عوام کے ذہنوں میں ایک تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

مجھے ان لبرل افراد سے کلام نہیں ہے کہ جو موجودہ صورتحال کا قصوروار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں کہ ان کی مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں یہ معاندانہ جذبات پروان چڑھے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے افغانستان کی ناعاقبت اندیشی کی بنا پر آج سارا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ پختونستان کے نعرے سے لے کر ہر پاکستان مخالف شخص کو پناہ دینا اور پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے کا وتیرہ بنا چکے تھے۔ یہاں تک کہ جب ظاہر شاہ کا تختہ ان کے کزن نے الٹ کر کمیونسٹ نواز حکومت قائم کی تھی تو تب بھی انہوں نے اس حکمت عملی کو ماضی بنانے کی بجائے مزید جوش و خروش سے آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھا۔

اس افغان مداخلت نے پاکستان میں ایک کیفیت پیدا کر دی تھی کہ اس سے کیسے مقابلہ کیا جائے پھر سرخ روس نے پاکستان کی جانب سے لگائی گئی سرخ لائن کو عبور کر لیا اور وہ افغانستان میں آ دھمکے اب یا تو ہم اپنی سرحدوں پر سرخ فوج کو سامنے کھڑا پاتے اور ساتھ ساتھ افغانستان کی مخالفانہ حکمت عملی کا مقابلہ کرتے ہیں اور یا عملی طور پر ہاتھ پاؤں مارتے۔ قرین عقل تھا کے ہاتھ پاؤں مارتے۔ بلاشبہ اس صورتحال اور اس کے تدارک کی غرض سے اختیار کی گئی حکمت عملی کے کچھ منفی اثرات وطن عزیز پر بھی قائم ہوئے جو ابھی تک قائم ہیں مگر اب تو افغانستان میں ایک ایسی حکومت ہے جو پاکستان کی مخالفت نہیں رکھتی ہے۔ میں اس بات کا بھی قائل نہیں ہوں کہ اس کو افغان طالبان کی حکومت کے نام سے پکارا جائے۔ یہ اب افغانوں کی حکومت ہے جو بیرونی مداخلت کے بغیر قائم ہوئی ہے۔ اس لئے موجودہ افغان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور ان واقعات کی مذمت کرے۔

یہ افغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے سے چند دن قبل کی بات ہے کہ الطاف حسن قریشی نے ایک کھانے پر مدعو کیا۔ افغان طالبان کامیابی کے قریب نظر آ رہے تھے اور اس بات پر تمام حاضرین محفل ایک اطمینان محسوس کر رہے تھے کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت سے پاک حکومت قائم ہونے والی ہے جو کہ پاکستان دوست بھی ہوگی۔ وہاں پر چند دیگر افراد بھی موجود تھے جن میں اعجاز الحق بھی تھے۔ وہ اپنے افغان طالبان کے ساتھ اعلی سطحی رابطوں کا ذکر کر رہے تھے بلکہ وائس میسج سنوا رہے تھے۔

میں نے دوران گفتگو کہا کہ ان دونوں ممالک کے باہمی روابط اس وقت پائیدار ہوں گے جب ایک دوسرے کے معاملات کو حل کیا جائے گا۔ پاکستان تو افغانستان کو ہر سہولت دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے اسی طرح نئی افغان حکومت کو بھی پاکستان کے لئے اہم مسائل یعنی ڈیورنڈ لائن کو بطور سرحد قبول کرنا اور دہشتگردی کے معاملات پر پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے تا کہ پاکستان اس سرحد سے مکمل طور پر مطمئن ہو جائے۔ ساتھ ساتھ افغان طالبان کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی عمل کی طرف بھی بڑھنا چاہیے تا کہ مستقبل میں بھی پر امن انتقال اقتدار ممکن ہو سکے کیوں کہ افغانستان میں بد امنی سے پاکستان بری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔ افغان حکومت سے پاکستان کو ان معاملات پر فوری طور پر گفتگو کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ دونوں برادر ممالک مستقبل میں بھی کسی کشیدگی سے محفوظ رہ سکے۔

اس وقت ایک اور مسئلہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے سیاسی بیورو کے ترجمان نے اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے ایک خاص پوزیشن لی جو ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ افغان حکومت اس حوالے سے کیا سوچ رکھتی ہے۔ لیکن افغان حکومت سے ان امور پر گفتگو کرنے کے لیے پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ سیاسی استحکام حاصل نہ کر دینے کی حکمت عملی پر پی ٹی آئی مکمل طور پر کار بند ہے کی اگر ہماری حکومت ہوگی اور ہم اپوزیشن کو پیسنے پر قادر ہوں گے تو درست ورنہ چاہے کچھ بھی ہو جائے عمران خان ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ وہ افغان طالبان کے برسر اقتدار آتے وقت بھی زنجیریں توڑنے کا غیر ذمہ دارانہ بیان دے چکے ہیں جب ان کی ذمہ داریاں سرکاری تھی اب تو وہ بالکل ہی آزاد ہو کر بیان بازی کر رہے ہیں۔ حالاں کہ اس وقت سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ایس سی او کا اجلاس ہونے والا ہے۔

چینی صدر اور صدر پیوٹن کی ملاقات تو طے ہے جب کہ وہاں پر ابھی تک کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور نریندر مودی کی بھی ملاقات ہو جائے مگر اب تک یہ کوششیں ثمر آور نہیں ہو سکی ہیں۔ ان تمام حالات میں سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ہو گی تو معاشی استحکام کو بھی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اسی وجہ کی وجہ سے ڈالر، پیٹرول، بجلی اور ضروریات زندگی کی دیگر تمام اشیاء کی قیمتیں بہت بلند ہو چکی ہیں اور اور عوام میں اس حوالے سے ایک اضطرابی کیفیت قائم ہے۔

اس پر طرفہ مصیبت اس سیلاب کی صورت میں سامنے آ گئی ہے۔ بہرحال افغانستان کی صورتحال ہو یا شنگھائی کوآپریشن کانفرنس ہمیں اپنی پالیسی کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ پالیسی پر تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب ملک میں سیاسی استحکام حاصل ہو جائے تاکہ ہم معاشی خوش حالی کی طرف قدم بڑھا سکے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments