منٹو اور خلیل الرحمٰن قمر: ایسی بلندی ایسی پستی


اس وقت میڈیا کی توجہ سب سے زیادہ یا تو سیلاب زدگان پر ہے یا عمران خان کے نام نہاد حقیقی آزادی کے جلسوں پر، یا سپورٹس میں اس وقت ایشیا کپ 2022 ء سب کے لئے مرکز نگاہ رہا ہے۔ انہی خبروں کے درمیان عورت کے حوالے سے ایک بیان نظر سے گزرا جو دیگر خبروں کی وجہ سے بہت زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔

عورت کا گناہ پوری نسل کو تباہ کر ڈالتا ہے : معروف ڈراما نگار خلیل الرحمٰن قمر

جناب عالی اپنا یہ ”علیل جبری“ نظریہ اپنے معروف ڈراما ”میرے پاس تم ہو“ میں بڑی شد و مد سے پیش، بلکہ مسلط کرچکے ہیں، دو ٹکے کی لڑکی والے مکالمے کی صورت میں۔ اس پدرسری نظام کی عکاسی کرنے والے بیان نے باشعور مردو خواتین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا عورت گناہ کسی دیوار کے ساتھ کرتی ہے یا بے جان چیز کے ساتھ۔

جو مرد، عورت کے جسم پر اس کا حق تسلیم نہیں کرتا، وہ گناہ کی تمام تر ذمہ داری اور الزام عورت پر عائد کرتا ہے؟ پھر جناب عالی ان سوالات کا جواب بھی مرحمت فرمائیں :

مختاراں مائی، پرویز مشرف کے دور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی شازیہ، کم عمر زینب، موٹر وے پر بچوں کی موجودگی میں ڈاکوؤں کے ظلم کا شکار ہونے والی ماں، رتہ مرال میں ہمسایوں کی درندگی کا نشانہ بننے اور حاملہ ہو جانے والی کم عمر بچی، اور ان جیسی دیگر کئی بچیوں اور خواتین نے کون سی نسل کو خراب کرنے کا گناہ کیا ہے؟

90 ء کے عشرے میں ایک جنسی درندے نے سو بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا، اس نے کیا اس نسل کی خدمت انجام دی تھی؟

مفتی عبدالقوی جس پر قندیل بلوچ کے قتل کا الزام ہے، اور بدکار مفتی عزیز الرحمٰن جس کی جنسی زیادتی کی وڈیو وائرل ہوئی، کیا یہ دینی مدارس کے طلباء کی زندگی اور مستقبل سنوارنے کا کام انجام دے رہے ہیں؟ مفتی عزیز الرحمٰن قرآن کریم کی تعلیم دینے کے دوران بچے سے بدفعلی کر/کروا رہا تھا۔

جسم فروشی کا پیشہ کرنے والی خواتین کو سب سے بڑی اور زیادہ گالیاں دی جاتی ہیں کہ وہ لوگوں کے گھر برباد کرتی اور معاشرے میں فحاشی پھیلاتی ہیں۔ اس طوائف کے لئے گاہک لانے والا دلا (دلال) اور رات کی سیاہی میں طوائف سے گناہ کرنے والا جو بعض اوقات اس کی ناجائز اولاد کا باپ بھی ہوتا ہے، دونوں مرد ہوتے ہیں۔ یہ دونوں کردار یقیناً ہماری، اپنی، اور طوائف کی نسل کو سنوارنے اور معاشرے میں ایسے بچوں کے لئے اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں؟

ڈراما ’میرے پاس تم ہو‘ میں دو مرد دکھائے گئے : دانش، اور شہوار۔ دانش کی بیوی، مہوش اس کے منہ پر لات مار کر چلی گئی اور شہوار سے ناجائز تعلق بھی قائم کیا۔ جب دونوں کی خدا خدا کر کے شادی ہونے لگی تو شہوار کی بیوی اس کے منہ پر لات مارنے چلی آئی۔ مگر پھر شہوار کو معافی بھی مل گئی۔ دوسری طرف، مہوش کو تمام تر کوشش، شرمندگی، اور رونے پیٹنے کے باوجود معافی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ نکاح کے رشتے میں ہوتے ہوئے غیر مرد سے تعلق رکھنے کی بنا پر اس پر ’شرک‘ کا مذموم الزام لگا کر ذلیل کیا گیا۔ جو شوہر خدائی صفات سے محروم ہو، وہ بیوی کی بیوفائی کو شرک کا نام دے دے حالانکہ شرک اللہ کی وحدانیت سے انکار ہے اور شوہر (نعوذباللہ) خدا کا درجہ نہیں رکھتا۔ شعائر اسلام کو اپنی مرضی کا قابل مذمت پیراہن دے دیا گیا۔ یہ کہانی لکھ کر آپ نے ہماری نسل کو سنوارا ہے یا ان کے اذہان کو زہر آلود کیا ہے؟

دو ایسی فلمیں جناب عالی کے کریڈٹ پر ہیں جن میں عورت کو بدکار شوہر کو معاف کرتے دکھایا گیا:
کوئی تجھ سا کہاں۔ پروڈکشن اور ہدایات: ریما خان ( 2005 ء)
پنجاب نہیں جاؤں گی۔ پروڈکشن اور ہدایات: ہمایوں سعید، ندیم بیگ ( 2017 ء)

میں نے یہ دونوں فلمیں ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھی ہیں۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ دونوں کی کہانی اور اختتام یکساں ہے۔ بیوی اپنی محبت، نرم دلی، اور گھر کو آباد رکھنے کی خاطر بدکار شوہر کو معاف کر کے دوبارہ قبول کر لے۔ عیاش اور آوارہ مرد دوسری عورت کا جسم چھو لینے کے بعد بھی معافی کا حقدار ہو، ایسے مرد ہماری نسلوں کو اخلاقیات کے کون سے بلند مقام تک لے جاتے ہیں؟

اگر گناہ کی ذمہ داری صرف عورت پر ہے تو دین اسلام میں مرد کے لئے بھی سزا کا حکم کیوں ہے؟

یہ سوالات خلیل صاحب کے سامنے رکھ دیے جائیں تو جواب کجا، وہ آپے سے یوں باہر ہو جائیں گے جیسے ماروی سرمد کی زبان سے ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ سن کر ہو گئے تھے۔ سبحان تیری قدرت! پدرسری نظام کا اگر چہرہ اور وجود ہے تو یہ خلیل الرحمٰن قمر ہے جو نہایت بدصورت اور کراہت آمیز ہے۔

چلیں، گناہ میں عورت کی شمولیت سے انکار کی بات بھی کر لیں۔

دوستی اور ناجائز تعلقات سے انکار ہو یا مرضی کے خلاف شادی اور شوہر کی غیر ضروری خواہش پوری کرنے سے انکار، عورت کو ہر صورت نہیں کہنے کا حق حاصل ہے۔ ایسے حالات میں وہ قتل/غیرت کے نام پر قتل یا قاتلانہ حملے، جنسی زیادتی و آبروریزی، تیزاب گردی، اور ناک یا کسی اور عضو سے محرومی کا شکار بنتی ہے۔ بدکار اور عورت کو ملکیت سمجھنے والے مردوں کے معاشرے میں یہ ہے انکار کا نتیجہ۔ ہاں کرے تب مصیبت، نہ کرے تب مصیبت۔ عورت خود اپنا راستہ الگ کر لے یا مرد اسے چھوڑ دے، دونوں صورتوں میں عورت ہی قصوروار ہے۔ اس عورت کا قابل اعتراض لباس یا حرکات مردوں کو دعوت گناہ دیتے ہیں اور وہ عورت کی عزت لوٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ملک کے ایک سابق وزیراعظم کافی رنگین مزاج واقع ہوئے۔ کئی غیر ملکی خواتین کے ساتھ مل کر ناجائز اولاد پیدا کرنے کا الزام ان کے سر ہے۔ اگر وہ سب عورتیں ناجائز تعلقات قائم نہ کرتیں تو ان سے پیدا ہونے والی حرامی اولاد آج دربدر اور خوار نہ ہوتی کیونکہ ان کے مبینہ باپ نے انہیں تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ مرد گناہ کر کے صاف مکر جاتا ہے تاکہ ذمہ داری نہ لینی پڑے۔ عورت بھلے بھاڑ میں جائے۔ ایسے مرد معاشرے کے لئے جو خدمت انجام دے رہے ہیں، اس کا کوئی ثانی ہی نہیں۔

مذکورہ بالا سابق وزیراعظم نے ہمارے نوجوان طبقے کو جو بدزبانی اور گالیوں والا طرز کلام سکھایا ہے، اس نے ہماری نسل پر وہ احسان عظیم کیا ہے جو تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔ یہ ملک و قوم کے بلند پایہ خدمت گاروں اور محسنین میں سے ایک ہے۔ نسل سنوارنے کا جو کام یہ جناب تن تنہا کر چکے ہے، لاکھوں عورتیں مل کر بھی نہ کر سکیں گی۔

خلیل صاحب نے سیتا وائٹ کا نام تو ضرور سنا ہو گا۔ یہ محترمہ اپنی عیاشی کے چکر میں ایک ناجائز بیٹی کو دنیا میں لے آئیں جو اب شناخت سے محروم ہے کیونکہ باپ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس معاملے میں تمام قصور سیتا وائٹ کا ہے۔ نہ وہ گناہ کرتی، نہ اس کی بیٹی غیروں کے رحم و کرم پر ہوتی۔ کاش، وہ آج دنیا میں موجود ہوتیں تو خلیل الرحمٰن صاحب کے زریں الفاظ یقیناً انہیں گناہ سے تائب ہونے پر مجبور کر دیتے۔

تو ثابت ہوا کہ یہ عورت تو ہے ہی نحوست اور فساد کی جڑ۔ اس جڑ کو کاٹ ڈالنے میں ہی معاشرے کا سکون پنہاں ہے۔ لیکن اگر عورت نہ ہوتی مرد بے چارہ شادی، اولاد، بلکہ ناجائز کاموں کے لئے بھی کس کے پاس جاتا؟ اور تب آپ خلیل الرحمٰن صاحب دنیا میں کیسے تشریف لاتے؟ جن قابل احترام خاتون نے آپ جیسا عظیم قلم کار، ہیرا، اور آسمانی تحفہ ہمیں دیا، یقیناً انہوں نے نادانستگی میں معاشرے اور نسلوں کے لئے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ کاش، وہ اس کے اثرات سے آگاہ ہوتیں تو شاید ہمیں اور آئندہ نسلوں کو بھی بچانے کا کوئی بندوبست کر لیتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments