ایک گمنام ہیرو کی کہانی


قدرتی آفات کب دیکھتی ہیں کہ کون شاہ ہے یا گدا، وہ سب کے ساتھ قانون قدرت کے تحت برابری کا سلوک روا رکھتے ہوئے ملیا میٹ کر دیتی ہیں اور چند ہی ساعتوں بعد شاہ وگدا ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ سب کی محرومیاں اور مجبوریاں سانجھی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں رواں سال سیلاب نے جھونپڑیوں سے لے کر محلات تک سب کا صفایا کر دیا ہے۔ کہیں سوات کے ہوٹلوں کو دریا کی بے رحم لہروں نے عبرت کا نشان بنایا تو کہیں سیلاب نے بلوچستان کے کنا یاری گانے سے شہرت پانے والے وہاب بگٹی کو بچوں سمیت ایک چار پائی کے نیچے گھر بسانے پر مجبور کیا۔ لاکھوں لوگ بے گھری کی اذیت سے دوچار ہوئے، کروڑوں جانور پانی میں بہہ گئے اور کھربوں کا مالی نقصان ہوا۔

کئی دن تک تو حکام بالا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی لیکن اسی تاخیر میں خدا نے ہمیں کئی نئے ہیروز سے آشنا کروایا۔ کہیں وسطی پنجاب کے نوجوانوں نے کمر کس کے اپنی صلاحیتوں سے وہاں کے متاثرین کی دن رات راشن، چھت اور باقی بنیادی ضروریات کو پورا کیا اور کہیں نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مس وزیر نے گھر گھر جا کر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ ساتھ ہی ساتھ حکام بالا کی آنکھیں کھلی اور انہوں نے امداد کے روایتی طریقے اپنانے کے ساتھ ساتھ فوٹو سیشنز کا اہتمام کروانا شروع کر دیا۔ رواں دور میں ہیرو وہی ہے جس کا کام تصویری صورت میں سامنے آ جائے وگرنہ اس کا کام کوڑیوں کے بھاؤ ہے۔ لیکن ہر محاذ پر کچھ گمنام سپاہی ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی تصویریں تو نہیں لیکن کام بولتا ہے۔

موجودہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں ڈپٹی کمشنر سبی بھی انہی گمنام سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پہلی صف میں کھڑے ہو کر نہ صرف لوگوں کی جان و مال پر پہرا دیا بلکہ گنجان آباد علاقوں سے پانی کا رخ موڑنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔ ڈپٹی کمشنر کے اس اقدام سے علاقے کے بہت سارے لوگوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ رہیں بلکہ کثیر تعداد میں لوگ بے گھری کی اذیت سے دوچار ہونے سے بچ گئے۔ آفت کوئی بھی ہو، خدا کی طرف سے امتحان ہوتا ہے۔

سب سے کڑا امتحان وہاں کے حکمران اور انتظامیہ طبقے کا ہوتا ہے۔ اور یہ کڑا امتحان ڈپٹی کمشنر سبی نے جس طرح بے باکی سے پاس کیا اور کر رہے ہیں ایسی مثالیں ہمارے معاشرے میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ جہاں وسائل کا فقدان ہو، جہاں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہو اور جہاں کے باسی مایوسی کے پاتال میں جا گرے ہوں ایسے میں سیلاب جیسی مصیبت آن لے تو وہ صرف آسمان کی طرف دیکھ کر کسی غیبی امداد کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ڈپٹی کمشنر سبی نے ان کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے لوگوں کا اپنے لوگ سمجھ کر ریاست ماں کے جیسی ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ جہاں کچھ علاقوں کو پانی کا رخ موڑ کر سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا وہیں پر تباہ ہونے والے علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا ایسا مربوط نظام نافذ کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔

سیلاب کے بعد ہم سنتے ہیں کہ لوگوں نے فلاں علاقے میں اتنی مالی امداد کی ہے، اتنے کپڑے دیے ہیں یا اتنے سامان کے ٹرک بھیجے ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ نہیں سنا کہ کسی نے بے گھری کی اذیت میں مبتلا بے چارے بچوں کی تعلیم، تربیت اور کھیل کود جیسے ضروری عوامل کے لئے ذرائع پیدا کیے ہوں۔ ایک زیرک اور مدبر افسر ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی ناگہانی صورتحال میں بچوں کی نفسیات کس حد تک متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر سبی نہ صرف جانتے ہیں بلکہ انہوں نے اس اندیشے کو زائل کرنے کے لئے ہر ممکن عملی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں عارضی اسکولوں کا قیام اہم ترین اقدام ہے جہاں پر نہ صرف تعلیمی سرگرمیاں کروائی جا رہی ہیں بلکہ بچوں کی تربیت اور ذہنی نشو و نما کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جس کو ڈی سی سبی کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر خود کیمپ نما اسکولوں کا وزٹ کر کے کارکردگی کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں صنفی تفریق سے بالا تر ہو کر کروائی جا رہی ہیں۔ اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کے اسکولوں میں مرد اساتذہ جبکہ بچیوں کے اسکولوں میں خواتین اساتذہ پڑھا رہی ہیں۔

تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے صحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میڈیکل کیمپس کے علاوہ متاثرین کے لئے حجامت تک کا اہتمام کیا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر سبی ان گمنام سپاہیوں میں شاید ایک ہی ہوں جنہوں نے نو گو ایریاز تک بھی رسائی حاصل کر کے امدادی سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔ ایسے افسران نہ صرف ہمارے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں بلکہ خداوند کریم کی طرف سے مسیحائی پر معمور مخلوق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments