ریاض ڈگا – ایک سیدھے سادے شخص کی کہانی


ریاض میری عمر کا ہی تھا۔ اس کی والدہ ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھیں اور بہت اچھی خاتون تھیں۔ ریاض بچپن سے ہی اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آتا تھا، ہم عمر ہونے کی وجہ سے کئی بار میں اس کو کھیل میں شریک کر لیتا۔ لڑکپن میں ایک دن شدید گرمی تھی، گھر کے سامنے ہی میدان تھا جہاں شام کو لڑکے کرکٹ وغیرہ کھیلتے تھے۔ دن کو میں نے کئی بار دیکھا کہ میدان میں کوئی لڑکا نظر آئے تا کہ میں اس کے ساتھ جا کر کرکٹ کھیلوں، لیکن شدید گرمی میں میدان سنسان تھا۔

ریاض گھر پہ ہی تھا، میں نے اسے ہی ساتھ لیا اور میدان میں جاکر اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ تیز دھوپ میں کھیلنے سے ہم دونوں پسینے سے شرابور ہو گئے اور سخت گرمی محسوس ہونے لگی۔ کھیل ختم کر کے ہم گھر کی طرف لپکے تا کہ ٹھنڈا پانی پیا جا سکے۔ ریاض بھی ساتھ ہی تھا۔ میں گھر کے دروازے سے داخل ہونے لگا تو ریاض نے کہا ”پائی جان، بڑی پیاس لگی اے، پانڑیں پلا دیو، میرا خود گرمی سے برا حال تھا، میں نے کہا ٹھہر، ابھی شربت بنا کر لاتا ہوں۔

میں بے تابی سے گھر کے اندر گیا، فرج کھولا، شربت کی بوتل نکال کر جگ میں دو تین گلاس شربت بنایا اور فوراً ہی پی گیا۔ میں بھول چکا تھا کہ ریاض باہر کھڑا شربت کا انتظار کر رہا ہے۔ شربت پی کر طبعیت ٹھکانے آئی تو نیند آنے لگی، میں کمرے میں جا کر سو گیا۔ شام کے وقت میدان میں کھیلنے والے لڑکوں کے شور سے آنکھ کھلی، میں نے فوراً اپنا بیٹ اٹھایا اور باہر کی جانب لپکا، دیکھا تو باہر ریاض بیٹھا ہوا تھا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ“ پائی جان، شربت نئی بنڑیا ”مجھے کرکٹ کھیلنے کی جلدی تھی، میں نے فوراً کہا“ کوئی شربت وربت نئی ”اور میدان کی جانب چل پڑا۔ وہ بیچارہ تقریباً تین گھنٹے گھر کے باہر بیٹھ کر شربت کا انتظار کر رہا تھا۔

ریاض چلتے ہوئے دائیں بائیں جھولتے ہوئے چلتا تھا جس وجہ سے ہم نے اس کا نام ڈگا رکھ دیا تھا اور اسے اس کے اصل نام کے بجائے ”ڈگے“ کے نام سے ہی پکارتے تھے۔ اس کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریاض پہ بچپن سے ہی سایہ ہے، اس لئے وہ جھلا سا ہے، لیکن وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ اس کی والدہ کے دیے تعویذ ہر وقت اس کے گلے میں لٹکے رہتے۔ لڑکپن میں اس کے والدہ نے اسے کئی جگہ کوئی ہنر سیکھنے کے لئے بٹھایا لیکن وہ کسی بھی جگہ ٹکتا نہیں تھا، چند ہی دن کام کر کے وہاں سے بھاگ جاتا۔ اسے گھومنے کا شوق تھا اور دن پھر ایف بلاک، پنڈورہ اور دیگر علاقوں میں گھومتا رہتا۔ اس کی معصوم طبعیت اور معصوم باتوں کی وجہ سے ہر جگہ لوگ اس کے واقف بن جاتے اور اس کے ساتھ مذاق کرتے۔ پھر اسے عادت ہو گئی کہ جس بھی واقف کے پاس جاتا، کہتا، ”پائی جان، اک، دو روپے تے دے دیو“ ۔

ریاض اپنی ماں کا لاڈلا تھا اور وہ اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس نے کرسیوں کی بنائی کا کام بھی سیکھا اور اچھا کام کر لیتا تھا لیکن اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے یہ کام بھی چھوڑ دیا۔ ریاض کے دونوں بڑے بھائی اچھی نوکریاں کرتے تھے اور وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتے۔ ’ڈ گے‘ کو پستول سے فائر کرنے کا لڑکپن سے ہی بہت شوق تھا اور اکثر مختلف لوگوں سے فرمائش کرتا کہ ”پائی جان، اک فیر کرا دیو“ ۔ وہ اور اس کی باتیں ہر کسی کے لئے مذاق اور تفریح کا ذریعہ تھا۔

فتح جنگ سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر آگے اس کا گاؤں تھا اور وہ اکثر اپنے گاؤں جاتا رہتا تھا۔ وہ بس پہ بیٹھ جاتا اور کبھی کہتا پیسے نہیں ہیں، کبھی تھوڑے سے پیسے بس کنڈیکٹر کو دے دیتا۔ کبھی بس والے اسے سوار ہونے دیتے اور کبھی کرایہ نہ دینے یا کم دینے پہ راستے میں ہی بس سے اتار دیتے۔ ایک دن ریاض آیا تو بہت غصے میں تھا اور پولیس والوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ایک جگہ چند پولیس والے ایک خیمے کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے تھے، ریاض عادت سے مجبور ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ ”پائی جان، کچھ پیسے دے دیو“ ۔ پولیس والے اسے خیمے کے اندر لے گئے اور بیدردی سے اس کی شدید پٹائی کی۔ اس واقعے کے بعد ریاض کی اسلحے میں دلچسپی اور بھی بڑھ گئی۔

ایک دن ریاض کے پاس کچھ پیسے جمع ہوئے تو وہ بس میں بیٹھ کر درہ آدم خیل پہنچ گیا اور وہاں سے دو دستی بم خرید لایا۔ دستی بم لے کے وہ اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ دونوں دستی بم اس کے پاس تھے۔ اس نے ایک بم جیب میں رکھا اور دوسرا دستی بم ٹیسٹ کرنے کے لئے گاؤں میں کھیتوں کی طرف نکل گیا۔ کھیتوں میں پہنچ کر اس نے دستی بم فروخت کرنے والے دکاندار کی ہدایت کے مطابق دستی بم کی پن نکالی اور بم آگے کی طرف پھینک دیا، ایک شدید دھماکہ ہوا، دھماکے کی ہولناک آواز سن کر گاؤں والے گھروں سے باہر نکل آئے، دھماکے والی جگہ سے دھواں سا اٹھتے دیکھ کر بہت سے گاؤں والے اس طرف بھاگے، آگے دیکھا تو ریاض کھڑا تھا، وہ دور سے ہی ریاض کو برا بھلا کہنے لگے اور اسے مارنے کے لئے اس کی طرف لپکے۔

ریاض نے فوراً گاؤں سے باہر سڑک کی جانب دوڑ لگا دی اور گاؤں والے اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے، اس کی قسمت اچھی تھی کہ عین موقع پہ کوہاٹ سے راولپنڈی جانے والی بس آ گئی اور وہ فوراً بس میں بیٹھ کر گاؤں والوں سے بچ نکلا۔ راولپنڈی پہنچ کر وہ ہمارے گھر آیا اور کسی کو بتائے بغیر گھر کی چھت پہ واقع کمرے میں دوسرا دستی بم چھپا دیا۔ کچھ دن بعد نہ جانے کیسے والد صاحب کو علم ہو گیا کہ ریاض نے دستی بم لا کر گھر میں کہیں چھپایا ہے، انہوں نے ریاض کو بہت ڈانٹا۔ اس پر ریاض نے دستی بم نکال کر لے گیا اور پنڈورے کے ایک مزار کے دیوار کے ایک سوراخ میں اپنی طرف سے چھپا دیا۔ دوسرے دن جا کر دیکھا تو کوئی وہ دستی بم نکلا کر لے گیا تھا۔

ریاض لڑکپن سے جوانی میں داخل ہوا تو اکثر اس حسرت کا اظہار کرتا کہ ”میری قسمت میں شادی کہاں“ ۔ اس کے بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ وہ کہیں ٹک کر کام کرے لیکن ریاض عادت سے مجبور چند دن کام کرنے کے بعد وہاں سے فرار ہو جاتا۔ ریاض جوان ہو گیا لیکن اس کی معصوم طبیعت اور معصوم باتوں اور واقف افراد سے پیسے مانگنے کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کئی بار میں نے بھی اسے منع کیا کہ ریاض ہر ایک سے پیسے نہ مانگا کرو۔ لیکن وہ جواب دیتا، ”نئی پائی جان، او میرا پائی جان اے“ ۔

ریاض کی جوانی کی دوپہر ہوئی تو اس کے بھائی بھی کہتے کہ کہیں ٹک کر کام کرے تو ہم اس کی شادی کرا دیں کہ شاید اس سے راستے پہ آ جائے لیکن ریاض عرف ڈگا اپنی دنیا میں مست اور خوش تھا۔ تاہم شادی کی حسرت کا ذکر اسی شوق سے کرتا رہتا جس شوق سے وہ کبھی فائر کرنے کی حسرت ظاہر کرتا تھا۔ شادی کی حسرت ظاہر کرتے وقت اس کا شرمانا، مچلنا، معصومیت سے ہنسا دیکھنے کے قابل ہوتا۔ اس کا ایک بھائی امریکن ایمبیسی میں ملازم تھا جو بہت بعد میں امریکہ چلا گیا۔

اسی دوران بھائیوں نے اس پر دباؤ ڈال کر اسے کہیں کام پہ لگا یا اور اس کی شادی بھی کر دی۔ شادی یوں کی کہ اسے بارات پہ ساتھ نہیں لے کر گئے کہ کہیں سسرال جا کر اپنی معمول کی حرکتیں نہ کرنے لگے۔ پہلے ریاض ہمارے محلے کے کئی گھروں میں جوان ہونے تک بلا جھجک چلا جاتا تھا اور کوئی گھر والا اسے منع بھی نہیں کرتا تھا، لیکن اس کے شادی ہو جانے کے بعد لوگ اسے گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیتے، تاہم گھر کے باہر لان میں بٹھا دیتے۔

شادی کے بعد جب آتا تو میں اسے پوچھتا کہ کیوں حسرتیں پوری ہو گئیں؟ تو اس کے تاثرات ملے جلے ہوتے۔ دن گزرتے گئے اور اپنی شادی، بیوی کا تذکرے کرنے پہ اس پہ جھنجھلاہٹ طاری ہو جاتی اور وہ زیر لب غصے سے بڑبڑانے لگتا۔ اب ریاض آتا تو گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ جاتا، ہم اس سے اس کی بیوی کے بارے میں، اس کی شادی شدہ زندگی کے بارے میں پوچھتے تو وہ غصے میں آ جاتا اور خود کو گالیاں دینے لگتا کہ شادی سے پہلے تو زندگی بہت اچھی تھی، اب جہنم ہو گئی ہے۔

آہستہ آہستہ ریاض کا آنا کم سے کم ہوتا گیا۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ریاض آیا تھا، گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنی زندگی کو کوس رہا تھا کہ محلے کے گارڈ نے اسے مشکوک سمجھتے ہوئے وہاں سے اٹھا کر بھگا دیا کہ دوبارہ ادھر نظر نہیں آنا۔ اور پھر واقعی ریاض، ڈگا اس دن کے بعد دوبارہ نظر نہیں آیا۔ کئی سال بیت گئے ہیں لیکن اب تک ڈگا نظر نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments