پرویز ہودبھائی کا بیان: سائنس اور سماجی ضمیر


ڈاکٹر پرویز ہودبائی پاکستان کے ایک معروف سائنسدان ہیں۔ سائنسی سوچ کی ترویج کے لیے ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے ملک کے مختلف معاملات، بشمول بھٹو خاندان، کے حوالے سے اپنی آرا پیش کیں۔ بھٹو خاندان کے متعلق ان کی رائے کو بعض حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تنقید زیادہ تر سیاسی حلقوں یا بھٹو خاندان کے حلقہ ارادت میں شامل لوگوں کی طرف سے کی گئی۔ میری اس تحریر کا مقصد پرویز ہود بائی سے سیاسی حوالے سے نہیں بلکہ بعض علمی معاملات میں اختلاف کا اظہار کرنا ہے۔

زمانے طالب علمی میں ہم ڈاکٹر اقبال احمد کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے۔ ڈاکٹر اقبال بنیادی طور پر پولیٹیکل سائنس کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مانے ہوئے پولٹیکل ایکٹیوسٹ تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے فرانز فینون کے ساتھ مل کر الجیریا کی جنگ آزادی کا ساتھ دیا۔ ان کا امریکا کی ویتنام میں جنگ کے خلاف عالمی طور پر ضمیر جگانے میں اہم کردار رہا ہے۔ ہماری طرح ہودبائی خود بھی اپنے طالب علمی کے زمانے میں ڈاکٹر اقبال احمد سے بہت انسپائر تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم ہود بائی کو ڈاکٹر اقبال کے قبیل کا بندہ سمجھتے تھے۔ چونکہ ہودبائی ایک انسان ہیں اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کے ان سے غلطی نہ ہو۔ بحیثیت انسان آدمی سے غلطیاں بھی سرزد ہو سکتی ہیں۔ ہودبائی خود فزکس کے ایک منجھے ہوئے پروفیسر ہیں۔ اس لئے میں سائنس کے متعلق ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتا ہوں۔ مگر بعض اوقات جب وہ سماجی سائنس یا انسانی علوم کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو غلطیوں کے مرتکب اور مغالطوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک سائنسی علوم کا دوسرے علوم کی طرف روایتی تعصب اور حقارت۔ دوم پاکستانی لبرل کلاس کا اپنے اندر موجود ان سوچ کی موجودگی سے لاعلمی ہونا ہے۔

پہلی وجہ علمیاتی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ بحث جدید علوم کی علمیات کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہود بائی کے معاشرے اور علوم سے متعلق خیالات ان جدید علمیاتی بنیادوں کی فرق کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو فطری سائنس کو انسانی یا سماجی سائنس سے الگ کرتے ہیں۔ اپنے اسی انٹرویو میں ہودبائی نے دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں انسانی علوم پڑھنے والوں کا ذکر جس تحقیر سے کیا اس سے یہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی جعلی علوم ہیں یا وہ کند دہن لوگوں کے علوم ہیں۔

ان کا یہ کہنا کہ انڈین طلبا کی اکثریت سائنس کے مضامین پڑھتے ہیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ سائنس کے جملہ شعبوں کے ساتھ ساتھ انڈین طلبا کی ایک اچھی خاصی تعداد سوشل/انسانی سائنسز میں تخصیص رکھنے والی مشہور عالمی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ خود میری اپنی زندگی میں جن لوگوں نے میری فکر کو متاثر کیا ان میں رانا جیت گوہا، دپیش چکرورتی، ہومی بھابھا، گیاتری سپیوک، رومیلا تھاپر، امرتیا سین، اشیش نندی، راشد امین وغیرہ شامل ہیں۔

ہود بائی اور وہ پاکستانی لبرل سوچ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف سائنس ہی ایک خوشحال، پرامن اور تکثیری معاشرے کی بنیاد رکھے گی، وہ ایک بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ تاریخی اور عمرانی شواہد اس سادہ فارمولے کی نفی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں سائنسدان کم ہیں۔ اس لیے سائنس کی ترویج ضروری ہے۔ مگر ہمیں جن سماجی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے وہ سائنسی مضامین میں پڑھے لکھے یا سائنس دانوں لوگوں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سماجی سائنسدانوں کی کمی کی وجہ سے درپیش ہیں۔

سماجی علوم اس بات کا تعین کرتے ہیں معاشرے کو کس طرف اور کہاں جانا ہے۔ سائنس دان تو صرف گائیڈڈ میزائل بنا مس گائیڈڈ لیڈرز کو دیتے ہیں۔ یوں گائیڈڈ میزائل مس گائیڈ ہو جاتے ہیں۔ سماجی علوم لیڈرز کو گائیڈ کرتے ہیں۔ کوئی تو وجہ ہے کہ پولیٹکل سائنس کو آرٹس یا سماجیات کے کلیہ میں پڑھایا جاتا ہے نہ کہ فزکس کے ڈپارٹمنٹ یا کیمسٹری کی لیبارٹری میں۔ جرمن فلسفی ویلہم ڈیلتھی انسانی علوم کو سائنسی علوم سے اس لیے الگ سمجھتا ہے کہ موخرالذکر انسانی اعمال کے معنی اور تفہیم سے علاقہ رکھتے ہیں اور آخر الذکر معروض میں رونما ہونے والے واقعات کی اسباب کی روشنی میں وضاحت کرتے ہیں۔ اس لیے انسانوں اور معاشرے کو سمجھنے کے لیے سائنسی علوم کا نقطہ نظر اور طریقہ کار غیر موثر ہیں۔

اب تھوڑی دیر کے لیے ہم ایک ایسے معاشرے کی مثال لیتے ہیں جس میں سائنسدان بھرے ہوئے ہوں اور دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرہ کیسا ہوتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ سابقہ سوویت یونین کی مثال لے لیں۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد سوویت ریاست کا سارا زور سائنسی سوچ پر مبنی ریاست، معاشرہ اور فرد کی تشکیل دینے پر تھا۔ چونکہ سائنس ریاست کو فوجی طور پر طاقتور بناتی تھی اور سماجی و سیاسی معاملات سوال نہیں اٹھاتی تھی، اس لیے سائنسی علوم کو کھلی چھوٹ دینے کے ساتھ ساتھ مکمل پشت پناہی کی گئی جبکہ سماجی علوم کے شعبوں کو زیر دست رکھا گیا۔ سوویت سائنس جدید زمانے میں بغیر سماجی شعور کے ایک تابعدار سائنس بنانے کی ایک بے مثال مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت ریاست کے ستر سالوں میں ہمیں لاکھوں سائنسدان ملتے ہیں اور مجال ہے کہ کوئی پائے کا سماجی سائنس کا تھیورسٹ یا انسانی علوم کا پائے کا کوئی مفکر ملے۔

سائنس دہری جبر میں پنپ سکتی ہے مگر سماجی و فلسفیانہ فکر اس ماحول میں جنم نہیں لے سکتی۔ سوویت ریاست سماجی/انسانی علوم کا اس لیے مخالف تھی کہ یہ علوم سیاست، معاشرے اور کمیونسٹ نظریات کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی بیخ کنی لازمی تھی۔ یہی صورتحال آج چین میں ہے۔ چین میں آپ کو سائنس کے ہر شعبے میں ماہرین ملیں گے مگر سماجی اور انسانی علوم کے ماہرین سماجی سائنس کے افق پر کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ سائنس کی امارت اور فکر کی غربت کا مکمل استعارہ ہے۔

چین کے مقابلے میں انڈیا میں ہمیں سماجی علوم میں ایک متحرک بحث نظر آتی ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر بادی النظر میں انڈیا کی ترقی چائنا کے مقابلے میں پائیدار نظر آتی ہے۔ اب عصر حاضر سے مثال شمالی کوریا کی لیجیے۔ یہ ملک سائنسدانوں سے اٹا پڑا ہے اور وہ ایٹم بم، میزائل اور ہر قسم کے ہتھیار بنا رہے ہیں، مگر وہاں کوئی سماجی/انسانی علوم کا بندہ چراغ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ شمالی کوریا کے مقابلے میں جرمنی کے پاس ایٹم بم نہیں مگر جرمنی کے پاس یرگن ہیبرماس ہے جو شمالی کوریا کے پاس نہیں۔ خود فیصلہ کریں بغیر سماجی سائنس کا کوریا اچھا ہے یا سماجی سائنس کے ساتھ جرمن سائنس۔ جرمنی نے سائنس کو سماجی ضمیر سے الگ کر دیا تو ہٹلر کو جنم دیا۔

سائنس ایٹم بم اور میزائل بنا سکتا ہے مگر معاشرتی ضمیر نہیں۔ معاشرتی خمیر اور ضمیر سماجی علوم بناتے ہیں۔ جو لوگ یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ سائنس ہماری جملہ بیماریوں کی دوا ہے اور مذہب نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی منازل طے کرے گا، وہ پیچیدہ عمرانی معاملات کا بہت ہی سادہ اور سطحی جواب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی لبرلز سے درخواست ہے کہ اس کے بارے میں مزید گہرائی سے سوچیں نہ کہ سطحی لبرل فارمولوں پہ اکتفا کریں۔ انھی لبرل فارمولوں کی وجہ سے پاکستانی لبرل سوچ اپنے معروض میں رہتے ہوئے سوچنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ جیسے امت خرافات میں کھو گئی ہے، اسی طرح پاکستانی لبرل سوچ لیبلز (labels) کے دھندے میں کھو گئی ہے۔

اگر ہم پاکستان میں مذہب اور خاص کر اسلام کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم اسلام سے نفرت کرتے ہیں۔ اس کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ آج مذہب لوگوں پر جبر کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح سوویت یونین میں کمیونیزم کی مخالفت اس بنا پر کی جاتی ہے کہ یہ نظریہ ظلم و جبر کا سبب بن رہا تھا۔ ساوتھ افریقہ میں اپرتھائٹ رجیم کی مخالفت سفید فام نسل سے نفرت نہیں بلکہ اس غلط نسل پرستی سے تھی۔ پاکستانی لبرل سوچ بظاہر مذہب کی بظاہر مخالف ہے مگر اس کی اپنی وجود غایت مذہب کی موجودگی سے ہی ابھرتی ہے۔ پاکستانی لبرلز سے مذہب کی مخالفت اٹھا لو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

آب آئے ہمارے معاشرے کی طرف۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ پاکستان میں سائنس پڑھے ہوئے بندے زیادہ مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قرآن سے فزکس اور کیمسٹری کے فارمولے نکالتے ہیں۔ انڈیا میں بھی گجرات اور بعد میں پورے ملک میں نریندر مودی کا عروج ان پڑھ لوگوں کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس کے زیادہ تر حامی اور مالی سپورٹرز سلیکون ویلی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والے ہیں۔

یہ مثالیں ہیں ان نظریوں اور نظاموں سے کشید کی گئی ہیں جنھوں نے ایک ایسے انسان کی تشکیل کی کوشش کی جس کے پاس جدید سائنسی ٹیکنیک اور ٹیکنالوجی پر بغیر کسی سماجی شعور اور ضمیر کے عبور حاصل کی ہیں۔ ہود بائی اگر آپ سائنس کی ترویج کی خاطر سماجی علوم کی اس طرح سے تذلیل کریں گے تو آپ اس سماج میں ایسا فرنکنسٹائن ہا عفریت تیار کریں گے جو اپنے خالق اور مالک دونوں کو کھا لے گا۔ انڈیا کے معروف لکھاری خوشونت سنگھ نے انڈیا میں کثیر تعداد میں سائنسدانوں کے پیداوار کے ساتھ ساتھ غلبہ پاتی ہندوتوا کی سوچ کو دیکھ کر کہا تھا کہ انڈیا میں قرون وسطی کی ذہنیت کے ساتھ سائنسی مہارت کا ملاپ ایک بہت خطرناک عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاپ دنیا کی سب سے خطرناک سائنس کو جنم دے گی۔ اور اسی ملاپ کے نتیجے میں انڈیا خودکشی کر لے گا۔ ان کا مشاہدہ پاکستان پر بھی صادر آتا ہے۔ جہنم کا راستہ ہمیشہ نیک ارادوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔ سائنس کی ترقی کی خاطر سوشل سائنس اور آرٹس کو حقیر سمجھنا ہمارے لیے فکر کے جنت کے در واہ نہیں کرے گا بلکہ جہنم کا راستہ ہی ہموار کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ فطری سائنس کو فطری کام کرنے دیں اور سماجی سائنس کو سماجی۔ یہ دونوں مل کر ہی معاشرے کو آگے بڑھا اور بچا سکتے ہیں۔

مضمون نگار سماجی فلسفے اور افکار کی تاریخ کے قاری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments