عمرانی کھیل


یہ جوپاپولسٹ راہ نما ہوتے ہیں، ان کے نعرے کان کو نغمے کی طرح بھلے لگتے ہیں، مثلاً ’ہم کوئی غلام ہیں ‘ کتنا خوش آہنگ نعرہ ہے، فشارِ خون میں اِضافے کا باعث، اسرارِشہنشاہی کھولنے والا، اور ’غلام‘ کی غ کو جتنی زیادہ غراہٹ سے ادا کیا جائے، آقائوں سے اتنی ہی نفرت کا اظہار ہوتا ہے، اور ’حقیقی آزادی‘ کی منزلِ مبارک بالکل سامنے نظر آنے لگتی ہے، لیکن پاپولسٹ نعرے غبارے کی مانند ہوتے ہیں، دلیل کی سوئی کی نوک ہلکی سی بھی چُھو جائے تو’پُھس‘ ہو جاتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے والی تھی تو انہوں نے قوم کو بتایا کہ یہ ’امریکی سازش‘ ہے، اور امریکہ انہیں اس لئےنکالنا چاہتا ہے کیونکہ انہوں نے ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کہا ہے، اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت کو انہوں نے ’بھکاریوں‘ کی ’امپورٹڈ حکومت‘ قرار دے دیا۔ یہ نعرے پاپولزم کی بہترین مثال ہیں، سب کے سب غیر حقیقی، کانوں میں اَمرت دھارا گھولنے والے، افسانے، کہانیاں۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر کے لکھے ہوئے ایک مراسلے کو بنیاد بنا کرناصر ادیب کی سطح کا ایک اسکرپٹ بُنا گیا، جو باشعور لوگوں کی توہین کے مترادف تھا۔ عمران خان جو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد دھمال ڈالتے ہوئے وطن لوٹے تھے، ٹرمپ کی زیارت کو ورلڈ کپ جیسی فتح قراردیتے تھے، وہ ایک دن صبح اٹھے تو قومی خودداری کے جذبے سے سرشار ہو چکے تھے، عمران خان جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بھکاری تھے ، یعنی پچھتر سال میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والے پاکستانی حکمراں، انہوں نے اوروں کو بھکاری کہنا شروع کر دیا، خان صاحب جو ایک بادشاہ سے تحفہ میں ملی ہوئی گھڑی بیچتے پائے گئے اور بادشاہ کو بھی خبر ہو گئی، انہوں نے حکومت سے نکلتے ہی ’حقیقی‘ آزادی‘ کا اعلان فرما دیا۔

پھر خبر آئی کہ پی ٹی آئی نے امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ایک امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں، اور پچھلے ہفتے بنی گالا میں سابق امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری رابن رافیل اور عمران خان کی ملاقات کی تصدیق کی گئی، موضوعِ گفتگو کیا تھا، اس بارے میں کچھ بتایا تو نہیں گیامگر توقع ہے کہ خان صاحب نے امریکی سازش کے بیانیے پر معذرت کی ہوگی، اپنی سیاسی مجبوریوں پر روشنی ڈالی ہو گی، اور آئندہ ’بیبا بچہ‘ بننے کی یقین دہانی کروائی ہو گی۔پاپولسٹ لیڈرز کے نعروں کی بس اتنی ہی عمر ہوتی ہے۔بہرحال، اس ملاقات کے ایک دن بعد عمران خان نے غالباً اپنی سیاسی زندگی کا اب تک کا سب سے بڑا یو ٹرن لیتے ہوئے تجویز پیش کی کہ موجودہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دی جائے، اورپہلے الیکشن کروایا جائے پھر نئی حکومت نیا چیف لگائے۔ بظاہر تو اس تجویز کا عمران خان کی طرف سے آنا ناقابلِ فہم ہے کیوں کہ ابھی چند دن پہلے عمران خان نے باجوہ صاحب کی توسیع کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا، ویسے بھی چیف کی جتنی ’مدح‘ عمران خان نے اب تک کی ہے اس کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے۔میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل ،جانور اور نہ جانے کیا کیا، ان سب کا روئے سخن جنرل امجد شعیب کی طرف تو یقیناً نہیں رہا ہو گا۔ تو سوال یہ ہے کہ عمران خان اب کس مار پر ہیں؟

آرمی چیف کی تقرری کے ایک غیر سیاسی عمل کو عمران خان جس طرح گلی کی سطح پر لے آئے ہیں، اس پر ادارے کے کیا تاثرات ہوں گے؟ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ فوج بلا شبہ ہمارا سب سے منظم ادارہ ہے اور اس کے ساتھ یہ چھیڑ خانی قطعاً ملکی مفاد میں نہیں۔ادارے کو سیاست سے اور سیاست دانوں کو ادارے سے دور رہنا چاہئے کہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔اب لگ یوں رہا ہے کہ عمران خان کسی نام سے بہت گھبرا گئے ہیں اور اُس تقرری کو روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں، یعنی اگر ’میرا بندہ‘ نہیں لگ سکا تو میں ’تمہارا بندہ‘ بھی نہیں لگنے دوں گا۔ کیسی کوتاہ نظری کی بات ہے کہ سیاست دانوں کو آج تک یہ ہی سمجھ نہیں آ سکی کہ فوجی فوجی ہوتا ہے، میرا تیرا بندہ نہیں ہوتا، جنرل ضیا الحق سنیارٹی لسٹ میں آٹھویں نمبر پر تھے،پرویز مشرف تیسرے نمبر پر اور جنرل قمر باجوہ چوتھے نمبر پر، اپنے ممدوحین کو ان حضرات سے کس قدر فیض پہنچا یہ تاریخ کا حصہ ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جتنی مرتبہ مارشل لگا وہ ان جرنیلوں نے لگایا جنہیں آئوٹ آف ٹرن ترقی دی گئی تھی۔تاریخ کا سبق یہی ہے کہ وزیرِ اعظم رضاکارانہ طور پر اپنا آرمی چیف لگانے کے غیر مشروط حق سے دست بردار ہو جائیں، اور دو سینئر ترین افسروں میں سے ایک کو چیف اورایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نامزد کر دیا جائے۔ نوکری میں ایکسٹینشن بھی ادارے کےسینئر افسران کااستحقاق مجروح کرنے کے مترادف ہے، یہ ایک بری روایت ہے جسے ترک کر دینے میں ہی عافیت ہے۔ اُدھر عمران خان اگلے آرمی چیف کو متنازع بنانے کے لئے پر تول رہے ہیں، اُس کا بھی یہی حل ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح آرمی چیف کی تعیناتی کا اصول بھی طے کر لیا جائے تاکہ میرا آرمی چیف اور تیرا آرمی چیف کا تماشا ختم کیا جا سکے، مگر واقفانِ حال کا اصرار ہے کہ اس ضمن میں سینئر موسٹ افسر کی تعیناتی کا اصولی فیصلہ بھی شاید عمران خان کو مطمئن نہ کر سکے، تو پھر اس قضیے کا ایک ہی حل بچتا ہے کہ 22کروڑ پاکستانی بہ شمول سات لاکھ فوجیوں کے، بنی گالا کی طرف رُخ کر کے دوزانو بیٹھ جائیں اور یک زبان ہو کر نعرہ لگائیں ۔۔۔بتا تیری رضا کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments