پاکستان میں ایک بڑی آفت، سیلاب یا سیاست


حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ایک ہزار سے زائد انسانوں کو نقصان ہو چکا ہے، صرف انسانی جانیں ہی نہیں بلکہ مویشیوں اور فصلوں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ لاکھ سے زائد مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ وفاقی وزیر ماحولیاتی کے مطابق تیس ملین سے زیادہ شہری بے گھر ہوچکے ہیں اور ان سب میں ہونے والی مالی نقصان کے لئے سالہ سال درکار ہیں لیکن جانی نقصان کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔

پاکستان دنیا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ حالیہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے بھی بڑی آفت بن کر آیا ہے۔ یہ سب پاکستان میں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی اور درختوں کی کٹائی کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہے۔

حالیہ دنوں میں برسنے والی رحمت جو چند لوگوں کے لئے زحمت بن گئی، اس نے ہمیں دو پہلوؤں سے روشناس کروایا جہاں ایک طرف عوام اور کچھ این جی اوز سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لئے دن رات لگے ہوئے تھے وہی دوسری جانب ہمارے سیاستدان اپنی سیاست کا سکہ چمکانے کے مواقعے تلاش کر رہے تھے۔ جہاں کچھ لوگوں کا جذبہ انسانیت سے سرشار تھا وہی کچھ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بے حسی نے انسانیت کو شرمسار کر دیا۔

اسکی ایک مثال اس طرح دیکھنے کو ملی کے پیپلز پارٹی کے لیڈر منظور وسان نے سیلاب زدگان کی پریشانیوں اور تکالیف کو جانے بغیر خیرپور کے سیلاب زدہ علاقوں کو اٹلی کے شہر وینس سے تشبیہ دی، ان کی اس بات سے وہ کئی لوگوں کی کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ لیکن اب تک ان کا اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

جہاں ایک سیاستدان نے سیلاب زدہ علاقے کو وینس بنا دیا وہی دوسری جانب پیپلز پارٹی کی ویمن ونگ کی صدر فریال تالپور کے شوہر سیلاب زدگان میں پچاس پچاس روپے بانٹ کر تالی بجاتے دکھائی دیے۔

جہاں ایک طرف اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آئے وہی کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لئے امداد، اشیاء خرد و نوش، کپڑے اور دیگر سامان جمع کر کے ان لوگوں تک پہنچانے کے لئے دن رات محنت میں لگے رہے۔ ان میں سے ایک معروف کالم نگار/ سماجی کارکن نازیہ علی کا کہنا تھا کہ ”سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لئے جانے والوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے لوٹ مار وغیرہ، حکومت سے گزارش ہے کہ اگر آپ کام نہیں کر رہے تو جو کر رہیں ہیں انہیں سیکیورٹی فراہم کریں تاکہ وہ لوگوں کی مدد زیادہ سے زیادہ کرسکیں۔ کیونکہ کافی لوگ ابھی بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہیں، حکومت کچھ ایسا نظام بھی بنائیں جس سے سیلاب زدگان کو طبی امداد بھی فراہم کی جائے کیونکہ بہت سی خواتین اور بچے ان علاقوں میں موجود ہیں جو بیماریوں کا شکار ہو چکیں ہیں اور آنے والے وقت میں ہوسکتے ہیں۔ وہاں لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، کپڑے، ادویات اور کھانے پینے کے سامان کی بہت ضرورت ہے۔“

سیاسی سماجی تنظیم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے محمد عارف رند جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”کوئٹہ اور بولان کے اطراف میں پہاڑوں سے آنے والے پانی نے سیلاب کی صورتحال بنا دی لیکن اگر حکومت نے ڈیم وغیرہ بنائے ہوتے تو سیلابی صورتحال ایسی تباہ کن نا ہوتی، بلوچستان کا دیہی علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، لوگوں کے گھر، مویشی، فصلیں، بچے اور سب کچھ پانی بہا لے گیا، سندھ کا کافی پانی بلوچستان میں آتا ہے، تو حالیہ بارشوں میں ایک طرف سندھ سے پانی آیا اور دوسری طرف بولان سے، جس کی وجہ سے دیہی علاقہ تو تباہ ہوا لیکن شہری علاقے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت یہاں صوبائی یا وفاقی حکومت سے کوئی مدد کے لئے موجود نہیں، خاص طور پر بچوں کو الگ الگ بیماریاں ہو رہی ہے لیکن یہاں ضرورت کے مطابق طبی امداد نہیں، عوام، این جی اوز اور کچھ سماجی تنظیمیں کام کر رہیں ہیں لیکن نقصان زیادہ ہے اور مدد کرنے والے ہاتھ کم، لوگ یہاں پر سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو دکھ رہیں ہیں لیکن اب اس تباہی سے سیلاب زدگان کو آگے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔“

سیاسی جماعتوں نے ان دل رلا دینے والی صورتحال میں بھی صرف اپنے اپنے سیاسی مفاد کو ترجیح دی۔ کسی نے ایک دوسرے پر الزام لگائے تو کسی نے سیلاب میں مدد کے نام پر سیلاب زدگان کو ذلیل و خوار کیا۔ اگر بر وقت امداد نہ کی گئیں تو آنے والے دنوں میں حالات اور سنگین ہو جائیں گے۔ ملک سیلاب جیسی ناگہانی آفت سے دوچار ہے اور باشندے بے یاروں مدد گار کھلے آسمان تلے وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت مسئلہ صرف سیلاب زدہ علاقوں اور سیلاب زدگان کی مدد کرنا نہیں بلکہ سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو جو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے خوراک کی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے۔ ان حالات میں عوام کی خدمت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات بھلا کر اور انسانیت کا دامن پکڑ کر ان لوگوں کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments