سوشل میڈیا مباحث اور میجک ورڈ


گزشتہ دس سالوں میں سوشل میڈیا ایک مکمل phenomenon بن کر ابھرا ہے، آپ کوئی سائٹ یا ایپ کھولیں تو معلومات کا ایک سیلاب امڈتا چلا آتا ہے، پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا نے متاثر کیا اور ان دونوں کو سوشل میڈیا نے، دنیا تغیر کا نام ہے، اب سوشل میڈیا آگے چل کر کیا شکل اختیار کرتا ہے؟ شاید یہ بھی ہم بہت جلد دیکھ لیں گے۔

یہاں سوشل میڈیا کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ نمودار ہوا ہے، وہ ہے سوشل میڈیا پر ہونے والے تکرار نما مباحث، سوشل میڈیا نے عام لوگوں کے ساتھ خاص لوگوں کو بھی ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ جب آپ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوتے ہیں تو آپ وہی ہوتے ہیں جو آپ اصل میں ہیں، آپ کی ذہنی حالت، غصہ و ڈپریشن، بناوٹ پر حاوی آ جاتے ہیں اور آپ وہ سب کچھ اگل دیتے ہیں جو سنجیدہ محافل میں آمنے سامنے، احترام میں یا کول بننے کے چکر میں بیان کرنے سے گریز برتتے ہیں۔

بڑے بڑے رائٹر، پڑھے لکھے پروفیشنل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر (خاص طور پر اگر ان کی دی گئی معلومات یا دلائل کو چیلنج کیا جائے ) شدید غصے میں آ کر آپے سے باہر ہوتے نظر آتے ہیں، بہت سی مشہور شخصیات، اسکالرز اور بظاہر پڑھے لکھے نظر آنے والے اداکار اور اداکارائیں جب سماجی اور سیاسی موضوعات پر بات کرتے ہیں تو اپنے میدان کے یہ آئیڈل ( Idol) پاش پاش ہو کر خاک میں مل جاتے ہیں۔

زیادہ تر سیل فون کا استعمال ”ریسٹ رومز“ یعنی باتھ روم میں کموڈ پر بیٹھے ہوئے ہوتا ہے، آپ خود ہی اندازہ لگائیں اگر آپ کو وہاں غصہ آ جائے تو آپ کیا کچھ نکال کر مخالف بات کرنے والے کے منہ پر مل سکتے ہیں، آپ کے غصیلے دلائل کس قدر تعفن زدہ واقع ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک واٹس ایپ گروپ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کو لے کر بات چل رہی تھی، کہ کیا وہ شیعہ تھے یا سنی؟ لبرل تھے، جنازہ کس نے پڑھایا، کیوں پڑھایا، کتنی دفعہ پڑھایا وغیرہ وغیرہ۔

پہلے تو اس موضوع کی بے کاریت کا اندازہ لگائیں کہ اگر وہ شیعہ تھے یا سنی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تمام عقیدے قابل احترام اور ان کے ماننے والے اپنے مذہب سے اتنی ہی محبت کرنے والے ہیں،

شاید کچھ اہل تشیع احباب، قائد اعظم محمد علی جناح پر محبت میں اپنا حق جتانے کے لیے اس بحث کو اہمیت دے رہے ہوں کہ وہ ہمارا تھا اور کمال تھا، (بقول ہمارے ایک عزیز ترین شیعہ دوست اور بے شمار ذاکرین حضرات) ان کا نام ذوالجناح سے نکلا ہے اور یہ مملکت خداداد پاکستان ذوالجناح کے سموں کے صدقے وجود میں آئی، شاید اسی محبت اور عقیدے سے متعلق عقیدت کے صدقے وہ محمد علی جناح کی زندگی کے بہت سے سیاسی اور ذاتی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہوں، کیا کہا جا سکتا ہے؟

یہ واٹس اپ گروپ پڑھے لکھے، غیر روایتی، سنجیدہ اور اچھے خیالات کے لوگوں پر مشتمل ہے، اندازہ لگائیں کہ روایتی واٹس ایپ گروپس میں کیا چیزیں زیر بحث آتی ہوں گی اور کیا ادھم مچتا ہو گا۔

غلطی سے ایک پڑھے لکھے صاحب سے تھوڑا بہت اختلاف کر بیٹھا، حالانکہ میں ان کے علم اور لیاقت کا قائل ہوں، میرے دلائل میں ان کی تعریف بھی شامل تھی، اس کے باوجود وہ صاحب غصے میں نظر آئے، اپنے علم کے رعب میں انگریزی کے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میرے پاس اتنا دماغ کہاں کہ میں ان فضول دلائل میں پڑوں، ایک دفعہ کسی بہت بڑے اسکالر سے سنا تھا کہ اگر علم آپ کو عاجزی نہیں سکھا سکا تو وہ علم نہیں صرف معلومات ہیں، آپ کی محفل میں آپ سے کم علم اور آپ سے کہیں زیادہ علم رکھنے والے لوگ بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اچانک ان کے کچھ ہم خیال سپاہی ہاتھوں میں ڈھالیں اور تلواریں اپنے پچھواڑے میں چھپائے ان کی حفاظت کے لیے میدان میں کود پڑے، میرے دس دلائل میں سے صرف آخری نامکمل فقرے کو پڑھ کر جیسے ہی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو پچھواڑے میں چھپی تلواریں ان کی ٹانگوں میں سے لٹکتی ہوئی عیاں ہونے لگیں۔

اب کیا کیا جائے؟ یہ بہت اچھے اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، شاید بہت سی باتوں کو لے کر ہم سب ایک ہی پیج پر ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سوشل میڈیا ہے، جہاں آپ کے چہرے کے تاثرات اور آواز کا گرام آپ کے دلائل کی نوعیت اور جذبات کے اظہار میں آپ کی مدد نہیں کر سکتا، آپ جو لکھ رہے ہیں پڑھنے والا اس کو اپنی جذباتی حالت کے مطابق پر سیو (perceive) کر رہا ہے۔

تو جناب یہاں آپ کی مدد کو حاضر ہوتا ہے ایک (Magic aword) جادوئی فقرہ، I agree

شادی شدہ حضرات اس فقرے کی اہمیت اور اس کی تاثیر سے اچھی طرح واقف ہیں، ستو اور تخم ملنگا اس فقرے کے آگے کیا بیچتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments