توہین عدالت، ملکہ کی موت اور درویش کا کالم


ملکہ چل بسی مگر ٹارزن کیوں خاموش ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹارزن کو بولنے سے روک کر اچھا نہیں کیا۔ دل کی بھڑاس عدالت میں نکال لیتا، کچھ رو لیتا، کچھ گا لیتا تو بوجھ ہلکا ہو جاتا۔ اب پھر صحرا میں بھٹکنے والے اونٹوں کی گھنٹیوں سے مضطرب ساربانوں کی طرح جلسوں میں شکایت کرے گا اور کہے گا ”اوئے ججا۔ مروا دیتا ای“

درویش نے مرد آہن کے ساتھ کام کرنے والے ایک مجاہد سے پوچھا تو شب کے آخری پہر سجدہ ریز ہونے والے اس بہادر مگر غیر معروف جری نے رس کو چائے میں ڈبو کر نگلا اور فقیر کی طرف اپنی نیم وا شکوہ سنج آنکھوں سے دیکھا۔ فقیر مضطرب ہواء تو غازی نے دریائے آمو کے پار جاتے روسی فوج کے آخری ٹینک کی کرم خوردہ تصویر نکال کر کہا کہ انسان ہو یا ٹینک، اس پر برا وقت آ جائے تو اس کی گھن گرج کام نہیں آتی۔ گھوڑا خواہ کتنا ہی خود سر اور بدمست کیوں نہ ہو جائے اسے بالآخر مالک کی ہی ماننا پڑتی ہے۔

خمار گندم سے اگر انسان کا دل مطلق سیاہ بھی ہو جائے تو توبہ کا دروازہ پھر بھی کھلا رہتا ہے۔ اور جب تک باب استغفار کھلا ہواء ہو معافی تلافی میں ہی عافیت ہے۔ آشفتہ سروں کی مجلس برپا ہوئی تو آتش دان کی راکھ کو گزرے وقت کا اندوختہ سمجھنے والے گجر خان کے ایک صاحب بصیرت نے سیگرٹ کا دھواں بکھیرا اور درویش سے کہا کہ معافی انسان کو بڑا کرتی ہے، چھوٹا نہیں۔

درویش نے مرد غازی اور صاحب فہم کی گفتگو اور نصیحت من و عن ٹارزن کے سامنے رکھی تو اس نے بانوے کے ورلڈ کپ میں آخری اوور کا وہ قصہ چھیڑ دیا جسے سن کے غلام ذہنوں اور وقت کے بے سمت بگولوں سے سہمے ہوئے دلوں میں بھی پہاڑوں جیسا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نے معافی کو ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی قرار دے کر اس سے صاف انکار کر دیا۔ بڑے دل کے بڑے انسان نے البتہ یہ ضرور کہا کہ اگر عدالت نے اس سے معافی مانگی تو وہ غور ضرور کرے گا۔ عاجز وہاں سے اٹھا تو طبیعت میں عجب سرشاری تھی۔ معافی سے مگر انکار کے سبب دل بوجھل ضرور تھا۔ چنانچہ دل کا یہ بوجھ لئے فقیر حال ہی میں ٹومیٹو کیچپ اور پائیوڈین سے بظاہر اپنے جسم کے گھاؤ مگر درحقیقت روح کے زخموں کا علاج کروانے والے پنجاب کے ایک بزرگ اور زیرک سیاستدان کے ڈیرے پر پہنچا۔

کار سیاست میں اپنے بال سفید کرنے والے اس باہمت شخص کہ جس کا نمک کھانے اور کاسہ لیسی کو بہت سے طفلان مکتب ہمہ وقت تیار رہتے ہیں درویش کو کبھی اپنی دولت یا جاگیر سے مرعوب نہ کر سکا۔ تاہم باہمی نیاز مندی کا ایک تعلق تو ہمیشہ ضرور رہا۔ اعلی ظرفی کی ایک نشانی یہ بھی کہ وہ نوک قلم کے نشتر سے لگے زخموں سے کبھی اسی عاجز سے برہم نہ ہواء بلکہ گاہے گاہے اپنے تئیں آفات دنیاوی میں اس کی رستگاری کرتا رہا۔ چنانچہ جب فقیر نے ٹارزن کا مخمصہ گوش گزار کیا تو جہاں دیدہ شخص نے درویش کو اپنی چارپائی کے ساتھ بان کے موڑھے پر جگہ دی۔ رات کی بڑھتی تاریکی نے شہر کی سنسان اور بے نام گلیوں کو اپنی آغوش میں لیاء تو فقیر کو ٹھنڈ سی محسوس ہوئی اور اس نے محترم میزبان سے کوہستانی بھیڑ کی اون سے بنے کمبل کو لے کر سر تا پاؤں لپیٹا اور ایک دفعہ پھر اپنا مدعا بیان کیا۔

میزبان نے ہاتھ کے ایک اشارے سے خدمت کے جذبہ سے سرشار ایک تنومند قوی ہیکل مگر پیکر حیاء نوجوان کو اشارہ کیا تو حاضرین مجلس نے چند ہی منٹوں میں فقیر کو خلوت مہیا کر دی۔ بات چل نکلی تو سیاست معیشت قومی ہم آہنگی اور نہ جانے کتنے ہی دیگر امور پر خاکسار اور زیرک ہستی نے اپنا اپنا ماضی فی الضمیر کھول کر ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیا۔ پرانی رنجشوں، بے سود محبتوں، دشت سیاست کی ویران شکار گاہوں اور جھوٹی اناؤں کی شکست پر تا دیر بات ہوتی رہی۔

عاجز نے محسوس کیا کہ جس کام کے لئے یہ زرہ ناچیز رکشا کا کرایہ لگا کر یہاں تک پہنچا ہے، اس کا محسن، اس کا نیاز مند اس پر گفتگو کرنے سے یکسر گریزاں ہے۔ تب درویش نے جھک کر دونوں ہاتھوں سے اپنے ممدوح کی پنڈلی پکڑ لی اور گزارش کی کہ جب تک اس فقیر کو اس کے سوال کا شافی جواب نہیں ملے گا یہ پنڈلی نہیں چھوڑے گا۔

اس بے حد اصرار پر بہت احتیاط اور نرم لہجے سے فرمایا کہ جب پتنگ کی طنابیں ٹوٹ جائیں تو ڈور پکڑنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں رہتا۔ اس وقت رفتار اور سمت پرواز کا تعین صرف اور صرف منہ زور ہوا کے پاس ہوا کرتا ہے۔ جنگ میں ایک محاذ پر شکست پر شکست ہونے لگے تو ایک دور اندیش کمانڈر وہی ہوتا ہے جو اپنی بصیرت کو اندھے جذبات کا ایندھن نہ بننے دے بلکہ دشمن کو زچ کرنے کے لئے اس کے مد مقابل کوئی اور نیا محاذ کھول دے۔

فقیر کے چہرے پر کم فہمی اور ناسمجھی کی بچھی پرتیں نمایاں ہوئیں تو محترم میزبان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ”نورے“ نامی اسی تنومند کو کچھ ہدایات دیں۔ چند ہی منٹوں میں کانوں میں ”باں“ ”باں“ کے مانوس آواز آئی اور نورا بھینس کے ایک کٹے اور رسی کے ساتھ نمودار ہواء۔ اس سے پہلے کہ سوال و جواب کی کوئی نوبت آتی، نوجوان نے زیرک سیاستدان کی ہدایت پر بتیاں گل کر دیں اور کٹا رسی سمیت درویش کو تھما کر گویا مجلس کے اختتام کا خاموش اعلان کر دیا۔ عاجز اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ خود کو بھیگی رات کی خنک ہواؤں میں حیوان ناطق کے ہمراہ اسلام آباد کی سڑکوں پر پایا۔ رات کی ان اجنبی مگر عذاب چشیدہ گھڑیوں میں ایسی سواری کہاں سے ملے جو فقیر اور خاموش چوپائے کو اکٹھا بٹھا کر ٹارزن تک لے جائے؟

جب دماغ نے خیالات کے گھوڑے دوڑائے تو دل نے اس فرض شناس پولیس افسر کے در پہ دستک دی کہ جس کی گرج دار آواز کی گونج اور لاٹھی کی ٹھک ٹھک سے بے شمار چور اور جرائم پیشہ توبہ پر مجبور ہوئے۔ وقت کی طاقتور ترین وزیراعظم کے بھائی کو اسی افسر کی ماتحت فورس نے گھر کے سامنے ڈھیر کیا مگر وہ گولیوں کی آواز سن کر بھی مرعوب نہ ہوا بلکہ کمال متانت سے اپنے گھر کے لان میں چائے کی چسکیاں لیتا رہا۔ درویش نے اپنے حالات، ٹارزن کا مخمصہ اور زیرک سیاستدان کا ماجرا بیان کیا۔

نیز اپنے اور کٹے کے لیے مشترکہ سواری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ برادرم تم چنداں فکر نہ کرو۔ جو تم پہ گزری سو گزری، اب آزمائش کی گھڑی ختم ہوئی۔ میں اتنی ٹھنڈ میں کہاں نکلوں گا۔ تم کٹا کھول دو اور خود چار نمبر بس پہ چڑھ جاؤ۔ عاجز کچھ جز بز ہوا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ جو کہا ہے ویسے کرو۔ میری اسی بات میں تیرے ٹارزن کی کی الجھن کا بھی جواب ہے۔

ہما شما کی بات نہیں، سلطان صلاح الدین ایوبی یا شاید کسی اور مسلمان حکمران کے وزیر نے ایک سائل کو جواب میں فرمایا تھا کہ آدمی اپنی گفتگو کے وزن سے پہچانا جاتا ہے۔ کسی دوست کی کہی کوئی اچھی بات، کسی دانا اور فہیم کا کوئی اچھا قول، تاریخ کا کوئی بے رحم جملہ اور انسانوں کی تلون مزاجی آشکار کرنے والے شاعر کا کوئی مصرع بسا اوقات تا دیر تک کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ یہی اس عاجز کے ساتھ ہوا اور چار نمبر بس کے اندر بیٹھا اس کے کانوں میں فرض شناس پولیس افسر کا یہ فقرہ ”کٹا کھول دو“ ، ”کٹا کھول دو“ بار بار سنائی دیتا رہا۔ پھر یکلخت جیسے سارے پردے درمیان میں سے ہٹ گئے، بات سمجھ میں آ گئی اور شرح صدر ہو گیا۔

داناؤں کا قول ہے کہ جب بات سمجھ میں آ جائے تو پھر اس کو روکنا نہیں چاہیے۔ چنانچہ عاجز نے ٹارزن کو ساری کتھا سنائی اور مشورہ دیا کہ عدالتوں سے معافی مانگنے سے بچنے اور سیاست میں اپنا مقام بلند کرنے کے لئے وہ ہر ہفتے ایک نہ ایک نیا کٹا ضرور کھولے اور کبھی ایکسٹینشن، کبھی سلیکشن اور کبھی الیکشن کی پھل جھڑی چھوڑتا رہے۔ درویش کا مشورہ سن کے میانوالی کے خشک پہاڑوں کا بیٹا مسکرایا اور بڑے رسان سے کہا ”اوئے چاچا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ تو اتنا پیار کرنے والا ہے۔ پر یہ تو بتا میں اتنے سارے کٹے کہاں سے لاؤں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments