15 ستمبر: یوم جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کی بے حسی
15 ستمبر کو پوری دنیا میں جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2007 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری سے 2008 میں پہلی بار منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد جمہوریت کی فروغ، جمہوری اقدار کی ترقی اور دنیا میں جمہوری حکومتوں کی حمایت شامل ہیں۔ جمہوریت کا لفظ یونانی الفاظ ”ڈیموس“ سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے لوگ، اور ”کراٹوس“ کے معنی طاقت؛ لہذا جمہوریت کو ”عوام کی طاقت“ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حکمرانی کا طریقہ جو عوام کی مرضی پر منحصر ہے۔
دنیا بھر میں جمہوری حکومت کے مختلف ماڈلز ہیں۔ جیسے جمہوریت، آمریت جہاں ایک شخص حکومت کرتا ہے۔ اور oligarchy جہاں معاشرے کا ایک چھوٹا سا طبقہ حکومت کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اقلیتوں کے مفادات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے تو درست طریقے سے سمجھا جائے تو جمہوریت کو ”اکثریت کی حکمرانی“ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت، کم از کم نظریہ میں، تمام لوگوں کی طرف سے، ان کی ”مرضی“ کے مطابق حکومت ہوتی ہے۔
ابتدا میں براہ راست جمہوریت کی ایک شکل تھی۔ دوسرے لفظوں میں، عوام کی جانب سے حکومت کرنے کے لیے نمائندوں کو منتخب کرنے کے بجائے، ”عوام“ نے خود ملاقات کی، حکومت کے سوالات پر تبادلہ خیال کیا، اور پھر پالیسی کو نافذ کیا۔ لوگ اکثر ایسے ممالک کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ”جمہوریت“ بنتے ہیں، ایک بار جب وہ نسبتاً آزاد اور کھلے انتخابات کا انعقاد شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جمہوریت میں محض انتخابات سے کہیں زیادہ شامل ہوتا ہے، اور جب ہم یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ملک کتنا جمہوری ہے۔
جمہوریت کو ایسی چیز کے طور پر بہتر طور پر سمجھا جاتا ہے جو ہمارے پاس ہمیشہ زیادہ یا کم ہو سکتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ہے یا نہیں۔ موجود حالات میں پاکستان کے تمام سیاسی جماعتیں چاہیے وہ حکومت میں برسر اقتدار ہے یا اپوزیشن جماعتوں کی روپ میں پیش ہیں۔ کیا ان جماعتوں کا کردار جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہے؟ کیا صرف ووٹ کے نام پر حکومت سازی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا ان جماعتوں میں مرکزی اور صوبائی جماعتیں تنظیمیں بند کمروں کی نوٹی فکیشن سے ہوتی ہے؟
کیا ان جماعتوں میں اختلاف رائے کا اظہار ممکن ہے؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے۔ تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر مذاق ہے۔ جمہوریت میں اظہار رائے آزادی پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اظہار رائے جمہوریت کی بنیادی رکن ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جب بھی اقتدار ملا تو سب نے حسب توفیق میڈیا پر پابندیاں عائد کیے۔ صحافیوں اور میڈیا سے منسلک لوگوں کو عبرتناک سزائیں دی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں اسٹبلشمنٹ سے مدد کی طلب گار ہوتی ہے۔
کیا غیر جمہوری طاقتوں کی حمایت سے اقتدار سے پہنچنا جمہوریت ہے؟ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کا نظام قائم ہے۔ کیوں کہ 75 سالوں میں ملک میں جمہوریت کو فروغ نہیں مل سکا۔ ملک میں ووٹ کی طاقت کے بجائے ملٹری کے کندھوں سے اقتدار کی سیڑھیوں تک پہنچنا جمہوریت نہیں بلکہ بدترین آمریت ہے۔ افسوس اس وقت پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ان غیر جمہوری روایات کی مخالفت نہیں کرتا۔ بلکہ جب بھی جس جماعت کو موقع ملا۔
اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر اقتدار تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ یوں ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ ہائبریڈ جمہوریت قائم ہے۔ اس وجہ سے جمہوریت میں ہماری رینکنگ 167 ممالک میں 104 ہے۔ یہ اس کا بات کا مظہر ہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کو فراڈ، دھوکہ دہی، جھوٹ سے زیادہ کچھ تصور نہیں کرتے کیونکہ 75 سالوں میں سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنے کردار اور طرز سیاست سے یہ سمجھایا ہے کہ جمہوریت ایک فراڈ، دھوکہ دہی اور جھوٹ کے سوائے کچھ نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جمہوریت اور جمہوری روایات کی فروغ کا سوچنا عبث و فضول ہے۔
- سانحہ یونان اور ہماری قومی بے حسی - 21/06/2023
- جمہوریت اور پاکستان - 20/06/2023
- پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل - 12/06/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).