اقتدار کی حرص


سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر آج تک اس ملک کی نہ کسی کو فکر ہے نہ خوف ہے۔ عوام کی بات ہی کیا کرنا

بقول جالب
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

عدم اعتماد کے نجیب الطرفین کھلواڑ سے لے کر پنجاب کی حکومتیں بنانے گرانے تک بس ایک ہی تکرار ہے اقتدار ہمارا ہے۔

ملکی معیشت بھاڑ میں جانے کے قریب ہے، تازہ بہ تازہ سیلاب نے عوام کی معاشی حالت کو مزید پتلا کر دیا۔ کچھ جگہ پڑھا کہ 2010 میں بھی ایسا ہی تباہ کن سیلاب آیا تھا، ہر سال آنے والا سیلاب تباہ کن ہی ہوتا ہے مگر ہمارے لئے، اشرافیہ اس سے مستثنٰی ہے۔ ہر سیلاب میں آپ کو وہی غربت زدہ مفلوک الحال لوگ ہی ڈوبتے مرتے نظر آئیں گے جن کا عام حالات میں بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ آپ ذرا ان لوگوں کے چہروں کو دیکھیں، لگتا ہے صدیاں بیت گئیں اسی حال میں، کوئی پوچھنے والا نہیں نہ کوئی مدد کرنے والا ہے۔ ایسے لگتا ہے نظام قدرت بھی بس انہی ہی سے خفا ہے۔ قبر سے برزخ اور قیامت کے تمام امتحانات سے یہ لوگ اسی دنیا میں نبرد آزما ہیں۔

رہی بات ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی، تو کوئی ایک خبر دکھا دیں جس میں کسی ایم این اے، ایم پی اے کو سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا گیا ہو؟ کچھ اکا دکا نظر آئے، باقی اپنے محلات یا پھر اسلام آباد براجمان ہیں کیونکہ

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ”سیلاب“ کے سوا

لیڈران کی تو بات ہی نہ کریں، اک تماشا ہے جو لگا ہوا ہے، کسی کو اقتدار بچانے کی فکر تو کسی کو اقتدار میں آنے کی۔ اس حرص و ہوس نے گل افشانیاں بھی خوب کیں، ایک حضرت تو ہر جگہ سے ہر کسی سے مانگنے پر تلے بیٹھے ہیں، جدھر گئے ہاتھ پھیلا آئے۔ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ دوسرے حضرت کبھی کہتے ہیں سیلاب کی وجہ سے آئندہ فصلیں اچھی ہوں گی ، پھر ایک اور دکھ کہ میڈیا ہمیں کوریج نہیں دے رہا، کبھی کھربوں کے فنڈز اکٹھے کرنے کے دعوے کرتے پائے جاتے ہیں (ڈیم فنڈ، شاہد خان امریکہ والے یاد آ گئے، ایک ارب سے ایک ہزار ڈالر کی کہانی) ۔ ایک اور حضرت کو بیرونی دوروں سے فرصت ملی تو انہوں نے بھی کھرب ہا کھرب کا ڈھول پیٹا۔ اتنا جھوٹ، اتنی پستی شاید ہی کسی دور میں دکھلائی گئی ہو۔ سب کچھ جعلی، تشہیری اور بے فائدہ۔

ان سے تو ہزار ہا درجے بہتر کام غیر سرکاری تنظیمیں کر رہی ہیں، جن میں اخوت، البرہان، الخدمت، ایدھی وغیرہ شامل ہیں۔

ہمارے ادارے اور سیاستدان سب کام دکھاوے کے لئے کرتے ہیں۔ اس میں نیک نیتی، احساس، فرض کی تکمیل کا عنصر ایک فیصد بھی نہیں ہوتا۔

مشرف دور میں ایسی آفات کے لئے ایک ادارہ بنایا گیا تھا ”این ڈی ایم اے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ قومی آفات بندوبستی مختار“ ، اس ملک کے لئے ایک اور سفید ہاتھی، اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔ ایک حاضر سروس جنرل صاحب اس کے انچارج ہوا کرتے ہیں۔ اس ادارے کو بنانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسی آفات کے لئے سویلیئنز کو تربیت دی جائے گی۔ مگر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا اور امید ہے آئندہ بھی کچھ نہیں ہو گا۔

بھان متی کا کنبہ اقتدار پر براجمان ہے، کنبہ اکٹھا رکھنا ہے؟ اقتدار سنبھالنا ہے؟ یا اس ملک کو چلانا ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ دوسری طرف حق و باطل کی للکار ہے۔ جو اس کھیل کو بناتے، رچاتے اور کھلاتے ہیں وہ بھی ”محو تماشائے لب بام“ ہیں۔

سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان
Latest posts by سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments