دارالعلوم دیوبند کا عصری تعلیم دینے کا فیصلہ اور اس کے محرکات


یہ دو ہزار اٹھارہ کی کوئی تاریخ تھی، منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کے انڈین انفارمیشن سروس کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر 72 اسامیاں نکالی گئی تھیں۔ میرے دوست جاوید انصاری نے مجھے فون کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا اور درخواست دینے کی ترغیب بھی دلائی۔ مطلوبہ قابلیت اور اپنی اہلیت کی جانچ کی تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میں ان پر پورا اتر رہا تھا۔ بلکہ جو اہلیت درکار تھی، میرے پاس اس سے کہیں زیادہ قابلیتیں تھیں۔

بہرحال میں نے فارم بھر دیا، امتحان ہوا اور میرا نام بھی منتخب ہو گیا۔ میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ مگر یہ خوشی اس وقت معدوم ہو گئی جب ڈاکومینٹیشن ویری فکشن کے لیے گیا اور وہاں مجھ سے دسویں اور بارہویں کے سرٹیفیکیٹس طلب کے گئے، جو بدقسمتی سے میرے پاس نہیں تھے۔ میں نے ہزار تاویلیں کیں، مدرسہ بورڈ کا حوالہ دیا مگر کلرک کو ان سب باتوں سے کوئی مطلب نہیں تھا، اسے تو میٹرک اور بارہویں کے سرٹیفیکٹ درکار تھے جو مرے پاس نہیں تھے۔

یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھی خاصی ملازمت، مذکورہ دستاویزات فراہم نہ کر سکنے کی وجہ سے بس ہاتھ آ کر پھسل گئی تھی۔ بعد ازاں میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار سے تصدیق نامہ بھی لکھوا کر پیش کیا لیکن ان لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ مجھے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہاں پر یہ ساری باتیں بیان کرنے کا نہ تو موقع ہے اور نہ محل۔ لیکن اس واقعہ کے بعد میں نے سوچا کہ آخر ایسا کیا کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ دیگر بچوں کو ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا نہ پڑے تو میں نے 1989 میں ہمدرد ایجوکیشن سرکل کی جانب سے کیے گئے مدارس کے سروے سے، جو غالباً سید حامد صاحب نے کروایا تھا، ڈیٹا نکال کر تقریباً دو ڈھائی ہزار چھوٹے بڑے مدارس کے ذمہ داران اور ملی قائدین کو خطوط ارسال کیا اور اس میں دسویں بارہویں کے اسناد کی اہمیت اور محض دینی علوم پڑھائے جانے کی وجہ سے نقصان کو واضح کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ خدا را قوم کی ایک بڑی تعداد کو یکا و تنہا نہ چھوڑیں اور مدارس میں بھی اسٹیٹ کے مطابق تعلیم دیں۔

لیکن چند ایک مدارس اور تنظیموں کے ذمہ داران جس میں جامعۃ الفلاح کے ناظم مولانا طاہر مدنی صاحب، جامعۃ الہدایہ کے امیر فضل الرحیم مجددی، جماعت اسلامی ہند کے مجتبٰی فاروق، مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور زکوٰۃ فاونڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر محمود کے علاوہ کسی نے رسید تک دینا مناسب نہیں سمجھا۔

بجائے اس کے کہ اس کا کوئی جواب دیا جاتا اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا مجھے اس سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی، میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ لہذا غصہ کا شکار ہو جانا میرے لیے فطری بات تھی اور اس کے بعد ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ اب خاموش نہیں بیٹھوں گا، میں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈھیلا مار کر اس کے سکوت کو توڑنے کی کوشش کی۔

اس حوالہ سے کالم لکھنا شروع کیا اور ڈھائی تین درجن سے زیادہ مضامین مختلف اخبارات و رسائل اور مختلف ویب سائٹس کے لیے لکھے، جس کی تاب نہ لاکر متعدد مدارس پر قابض ناجائز ٹولہ، وہاں سے فارغ شتر بے مہار نوجوان یہاں تک کہ بڑے بزرگوں نے میرے خلاف مورچہ کھول دیا۔ میرے چند اساتذہ نے بھی میرے خلاف مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ جس کا میں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا اور کچھ کا انھیں کے لہجہ میں تلخ و تند انداز میں۔

جس پر مجھے دین دشمن کہا گیا، منافق اور لبرل کا طعنہ دیا گیا اور نہ جانے کیا کیا غلط بیانیاں کی گئیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دارالعلوم نے اپنے یہاں عصری علوم داخل کرنے اور دسویں تک تعلیم دینے کا یہ فیصلہ میری وجہ سے لیا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہم نے بہرحال سوشل میڈیا اور اخبارات و رسائل کے ذریعہ ایک ماحول بنایا اور مدارس سے متعلق ہر پہلو پر بہت سے مجھ سمیت میرے بہت سے احباب نے جم کر لکھا جس سے ایک بحث و مباحثہ کا ماحول بنا اور پہلی مرتبہ آزادی کے بعد مدارس کے حوالہ سے ملت میں اتنی بے چینی دیکھنے کو ملی۔

میں ابھی بھی دارالعلوم کے مجوزہ فیصلہ سے مطمئن نہیں ہوں اور مجھے ان کے رویے پر ابھی بھی شک ہے، کیوں کہ انھوں نے اس حوالہ سے کوئی بھی واضح موقف نہیں پیش کیا ہے، لیکن اس مبہم خبر سے بھی مجھے کتنی خوشی ہوئی، میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا، مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ برف کی سل پگھلنی شروع تو ہوئی، ورنہ تو کل کو کوئی اس پر کچھ سننے کو بھی تیار نہ تھا۔ اس موقع پر وہ تمام قلم کار جنھوں نے اس حوالہ سے رائے عامہ ہموار کرنے میں، اہم کردار ادا کا مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اس حوالہ مدارس کے مختلف پہلووں پر بڑے درد مندانہ مضامین لکھے اور ارباب مدارس کو اس کا احساس دلانے میں کارہائے نمایاں انجام دیا کہ تبدیلی نا گزیر ہے۔

اس موقع پر وہ تمام قلم کار جنھوں نے اس حوالہ سے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا مبارک باد کے مستحق ہیں، جن میں وطن عزیز کے قلمکاروں کے علاوہ پڑوسی ملک کے چند مخلص خیرخواہ بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے اس حوالہ سے ملت کو سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے مدارس کے مختلف پہلووں پر بڑے درد مندانہ مضامین لکھے اور ارباب مدارس کو اس کا احساس دلانے میں کارہائے نمایاں انجام دیا کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔

رائے عامہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں ہوتا اس کے لیے خلوص کے ساتھ صبر اور مستقل محنت درکار ہوتی ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان سب لوگوں نے اس کے لیے بڑی محنت کی اور متذکرہ فیصلہ میں، ان سب ہی کا حصہ ہے۔ بھلے ہی یہ فیصلہ حکومت کے دباؤ میں لیا گیا ہو، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ قائدین ملت کو بار بار ان لوگوں نے متوجہ کیا اور ان کے دلوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس مطالبے نے شدت پکڑ لی تھی کہ مدرسوں میں اصلاح کی جائے، چاہے وہ نصاب کے معاملے میں ہو، ڈگری کے معاملے میں یا پھر انتظام و انصرام کے معاملے میں ہر جگہ اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔

ممکن ہے اسی بات پر ہم جیسے کچھ نوجوانوں نے سخت لہجہ اختیار کیا ہو اور بہتوں کو وہ ناگوار گزرا ہو، لیکن یقین جانیں ہم سب کا مقصد نیکی اور خلوص پر مبنی تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ دیوبند کے حالیہ اجلاس میں نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات اٹھائی گئی، اور یہ تاریخ ساز فیصلہ لیا گیا، جس کا ہر چہار جانب استقبال کیا جا رہا ہے۔

ملت کے ایسے بہت سارے لاینحل مسائل ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب پر از سر نو غور کیا جائے اور ایک منظم لائحہ عمل بنا کر سنجیدگی سے اس پر عمل کیا جائے۔ خود دار العلوم دیوبند کا یہ فیصلہ بھی کافی نہیں ہے کہ وہاں دسویں یا بارہویں تک کی تعلیم دی جائے، بلکہ طلباء کے اندر وژن پیدا کرنے کے لیے مستقل کوشش کے ساتھ ساتھ مدارس کے جملہ تمام معاملات میں شفافیت و بہتری لانا نہایت ضروری ہے۔

ہمارے یہاں مختلف مذاہب اور مسالک میں شدید اختلافات ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ سب اپنے اپنے گلے شکوے بھلا کر مجموعی طور پر ملت کی بہتری اور خیرخواہی کے لیے کوشش کریں، ایسا نہ ہو کہ دار العلوم نے فیصلہ لے لیا تو باقی خاموشی اختیار کر جائیں۔ مدارس کی شکل میں ایک بڑا سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے، سبھی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے خوبصورت فیصلہ کی ستائش کرتے ہوئے اپنے اپنے اداروں میں بھی ایسے نیک کاموں پر پہل کریں اور امت کی ڈوبتی نیا کو کھینے کے لیے فکر مندی اور ذمہ داری کے ساتھ سب مل کر قدم آگے بڑھائیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments